عورتیں جذباتی طور پر زیادہ حساس ہوتی ہیں اور شاید ا س لئے کہ زندگی کی اونچ نیچ کو زیادہ محسوس کرتی ہیں۔ تلخ رویے ان پر زیادہ خراشیں ڈالتے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں میں کئی طرح کے جذباتی اور ہارمونل مدوجزر سے گزرتی ہیں۔زندگی میں ہونے والی تکلیف دہ باتوں اور واقعات کو آسانی سے بھلا نہیں پاتیں،مردوں کی نسبت ان میں منفی چیزوں کو سوچنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ایسے میں اگر منفی سوچوں کو ختم کرنے اور انہیں شکست دینے کی تکنیک نہ سیکھی جائیں تو سوچ کا یہ انداز مسلسل ذہنی دباؤ اور اینگزایٹی میں بدل جاتا ہے یہ اینگزایٹی جسمانی عوارض میں ظاہر ہوتی ہے۔اکتوبر میں ایک طرف تو ذہنی صحت کی اہمیت کا دن منایا جاتا ہے تو دوسری طرف اسی ماہ خواتین میں بریسٹ کینسر سے آگاہی کے لیے بھی پنک ربن کمپین بھی چلائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایک حیران کن ریسرچ یہ ہے کہ بریسٹ کینسر کا بہت حد تک تعلق عورتوں کی ذہنی صحت کے ساتھ ہوتا ہے۔قریبی رشتہ داروں کے رویوں سے مسلسل ناخوش رہنا، خاص طور پر اپنے شوہروں سے ناراض خواتین میں جب تلخ اور منفی جذبات احساس کے پریشر ککر میں پکتے رہتے ہیں اور انہیں باہر نکلنے کا موقع نہیں ملتا اس سے بریسٹ کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اب دنیا بھر میں اس بیماری کو نئے زاویے سے دیکھا جا رہا ہے۔مرض ہونے سے پہلے کی آگاہی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس آگاہی کا آغاز صحت مند طرز زندگی اپنانے سے ہوتا ہے۔جس میں ذہنی دباؤ کو کنٹرول کرنا ، تلخ اور منفی جذبات کو مثبت سوچ میں بدلنا پہلا قدم ہے۔ مازینہ رفیع کے حوالے سے میں نے پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھا یہ خاتون کنیڈا میں بریسٹ ہیلتھ کے لیے کام کرنے والی mamalive فاؤنڈیشن کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس فاؤنڈیشن نے اپنے طور پر کینسر سے صحت یاب ہونے والی خواتین کی نجی زندگیوں پر ریسرچ کی تو سامنے آیا کہ ان میں بیشتر خواتین کے اپنے شوہر یا دوسرے قریبی عزیزوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت خوش کن نہیں تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کی تعلقات جذباتی سطح پر تکلیف دہ تھے۔اور وہ برس ہا برس سے اس تلخی کو اپنے اندر اتارتی رہی تھیں جو بالآخر اس بیماری کی صورت ظاہر ہوئی۔ خواتین زیادہ جذباتی اور حساس ہوتی ہیں۔وہ انسانی رشتوں میں رویوں کے اتار چڑھاؤ شوہر کی عدم توجہ بچوں کی بے وفائی کسی قریبی عزیز اور دوست کے مرنے کا دکھ روگ کی طرح دل سے لگا لیتی ہیں خصوصاً ہمارے پاکستانی معاشرے میں خواتین ایسے سماجی ڈھانچے میں زندگی گزارتی ہیں جہاں تفریح اور اظہار کے مواقع اس قدر میسر نہیں ہوتے ہیں مسائل پر بات کرنا معاشرتی اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے بہت سے موضوعات کو ٹیبو کہہ کے جھٹک دیا جاتا ہے۔ سمجھنے اور سیکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی مہربان تو ہوتی نہیں پھر انسانی تعلقات کے راستے بڑے کھردرے ہوتے ہیں۔ توقعات ٹوٹتی ہیں تو دکھ ہونا یقینی ہے مگر اپنے ذہن کی ٹریننگ ایسی کی جائے کہ دکھ وقتی ہو،افسوس عارضی ہو اسے روگ نہ بنائیں۔اگر کوئی دکھ روگ بننے لگے تو اسے پہچانیں اور فورا اسے شکست دینے کی کوشش کریں۔ نارمل غصہ ناراضگی اور بات ہے مگر جب یہ مسلسل اور شدت کے ساتھ رہے اور زندگی کو متاثر کرنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ آج کل ہماری زندگی کا انداز ایسا ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر ذہنی دباؤ محسوس کرتا ہے اور خواتین اپنی زندگی میں کئی طرح کے بوجھ لے کے چلتی ہیں۔انہیں گھر بار کا خیال رکھنا ہوتا بچوں اور شوہر کے معاملات پھر رشتے نبھانے کے اس عمل میں وہ جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ ضروری ہے کہ جب آپ ذہنی دباؤ محسوس کریں تو پرسکون جگہ پر بیٹھ کر گہری سانس کی مشقیں کریں۔ذہنی مراقبہ تلخی سے سلگتے جذبات کو پرسکون کرتا ہے۔ کچھ دیر آنکھیں بند کرکے لمبے لمبے سانس لینے کی مشق کریں اور اس دوران اپنی سوچ میں فطرت کا کوئی حسین منظر لائیں سر سبز پہاڑ۔ نیل گوں جھیل یا پھولوں کے تختے اپنی سوچ کو تصور میں کسی ایک منظر پر فوکس کریں۔یہ مراقبے کی سادہ سی تکنیک ہے ۔نماز بہترین مراقبہ ہے پانچ وقت کی نماز سکون کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں ۔ شکرگزاری کی ڈائری لکھیں جس میں ہر روز اپنی زندگی کے مثبت باتوں کو نوٹ کریں جن کے لئے آپ شکر گزار ہیں وہ اچھا موسم بھی ہو سکتا ہے چائے کا کپ بھی ہو سکتا ہے آپ کی زندگی کی کوئی بھی اچھی چیز یاد رکھیں، چھوٹی سے چھوٹی نعمت بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ریسرچ بتاتی ہے کہ شکرگزار ی کرنے والے لوگ زیادہ صحت مند، زیادہ خوشگوار اور زیادہ پر لطف زندگی گزارتے ہیں۔ اس کائنات کے خالق اور مالک کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اسے سمجھیں اس میں شفاء ہے۔ باوضو رہنے اور اللہ کے ذکر میں۔ خود مشغول کرنے سے ہمارا پورا جسمانی اور جذباتی نظام ایک حفاظتی حصار میں آ جاتا ہے۔اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ خواتین دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں فطرت کے قریب رہیں پرندے، پھول تازہ پھل زیادہ پانی کا استعمال کریں ورزش کو معمول بنائیں۔ سوچ کے پریشر کوکر میں منفی جذبات کو دیر ابلنے نہ دیں۔ اپنے ذہن کو فورا اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے شکر میں لگائیں۔ شکر گزاری ایک ایسا وٹامن ہے جو جذباتی اور جسمانی طور پر بیمار زندگی کو شادابی اور صحت کی طرف کھینچ لاتا ہے اگر آپ زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں تو اس وقت شکر گزاری کرنا اور بھی زیادہ اہم ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم سخت تاریکی میں روشنی کو تلاش کرتے ہیں یا پھر حبس میں تازہ ہوا کے متمنی ہوتے ہیں۔