عمران خان کی گھڑی کی وجہ سے توشہ خانہ کے ایشو کو اچھالا گیا، مگر جب حقیقت سامنے آئی تو توشہ خانہ ایک ایسا حمام ثابت ہوا جس میں تمام مقتدر، سیاستدان بے لباس نکلے۔ توشہ خانہ کیا ہے؟۔ ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انہیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ تیس ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت تیس ہزار سے زائد ہوتی ہے، انہیں مقررہ قیمت کا پچاس فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 2020ء سے قبل یہ قیمت دس فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے بڑھا کر پچاس فیصد کر دیا گیا تھا، ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مختلف ڈیکوریشن پیس، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا 2002ء سے 2023 ء کا ریکارڈ کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر کے پبلک کر دیا ہے۔توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، وزرا ء اور سرکاری افسران کے نام شامل ہیں۔ توشہ خانہ سے کس نے کیا حاصل کیا؟ اس کی طویل فہرست ہے مگر اہل وطن کیلئے اس بارے جاننا ضروری ہے۔ اگر ہم بات موجودہ دور سے شروع کریں تو یہ سامنے آتی ہے کہ دسمبر2018ء میں صدرعارف علوی کوپونے دو کروڑ کی گھڑی اور قرآن پاک و دیگرتحائف ملے، انہوں نے قرآن پاک رکھ کر دیگر تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے۔ دسمبر 2018 ء میں خاتون اول بیگم ثمینہ علوی کوآٹھ لاکھ روپے مالیت کا ہار ملا۔ ثمینہ علوی کو اکیاون لاکھ روپے مالیت کا بریسلٹ بھی ملاجوتوشہ خانہ میں جمع کرایا گیا۔ صدر عارف علوی کو چھ لاکھ مالیت کی کلاشنکوف اے کے 47 تحفے میں ملی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے توشہ خانہ سے چار اشیا ء خریدٰںاور ان کے دو کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے ادا کیے، اس کے علاوہ عمران خان نے 38 لاکھ روپے کی ایک اورگھڑی 7 لاکھ 54 ہزار روپے ادا کرکے حاصل کی۔ توشہ خانہ دستاویز کے مطابق وزارت خارجہ کے چیف پروٹوکول آفیسر مراد جنجوعہ کو 29 جنوری 2019 ء کو 20 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی جو انہوں نے رکھ لی۔ ستمبر 2018 ء میں سابق وزیراعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر رانا شعیب کو 29 لاکھ روپے کی رولکس گھڑی تحفے میں ملی جبکہ 27 ستمبر 2018 ء کو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 73 لاکھ روپے مالیت کے تحائف موصول ہوئے جو انہوں نے توشہ خانہ میں رکھوا دیے تھے جبکہ 9 فروری 2011ء میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دو تحائف رکھ لیے تھے۔ علاوہ ازیں 2018 ء میں وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر وسیم کو 20 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ملی جو انہوں نے توشہ خانہ میں 3 لاکھ 74 ہزار روپے جمع کروا کے اپنے پاس رکھ لی۔ اسی طرح شاہد خاقان کے بیٹوں حیدر خاقان اور نادر خاقان کو بھی قیمتی گھڑیاں تحفے میں ملیںجو انہوں نے رکھ لیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوخانہ کعبہ کے دروازے کا ماڈل تحفے میں ملا جو انہوں نے 6 ہزار روپے ادا کرکے رکھ لیا، یوسف رضا گیلانی نے 21 لاکھ روپے ادائیگی کر کے جیولری باکس رکھا۔ 2011 ء کو یوسف رضاگیلانی نے 19 لاکھ روپے کے تحائف رکھے۔ سابق صدر آصف زرداری نے 25 ہزار مالیت کا گھوڑے کا ماڈل رکھ لیا، 50 ہزار مالیت کا پستول توشہ خانہ سے حاصل کیا، انہوں نے دونوں اشیا ء 9 ہزار 750 روپے میں حاصل کیں۔ آصف زرداری نے 2 کروڑ 73 لاکھ 39 ہزار مالیت کی ایک اورگاڑی رکھی، اس گاڑی کے 40 لاکھ 99 ہزار روپے ادا کیے۔ انہوں نے ساڑھے 12 لاکھ مالیت کی گھڑی اور 14 ہزار چھ سو مالیت کا گولڈ پلیٹڈ کویتی سکے کا ماڈل رکھا۔ انہوں نے تینوں اشیاء کے ایک لاکھ 89 ہزار روپے ادا کرکے رکھ لیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 11 لاکھ 85 ہزار مالیت کی گھڑی رکھی، نواز شریف نے 25 ہزار روپے مالیت کے کف لنکس اور ایک عدد قلم رکھ لیا۔ انہوں نے 15 ہزار مالیت کے 4 کویتی یادگاری سکے بھی توشہ خانہ سے حاصل کیے اور تینوں اشیا ء کے لئے 2 لاکھ 43 ہزار روپے ادا کیے۔ نواز شریف کو ملنے والی کار جو کروڑوں کی تھیاس کی مالیت 42 لاکھ 55 ہزار 919 روپے لگائی گئی جو انہوں نے 6 لاکھ 36 روپے ادا کر کے رکھ لی۔ حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے تو سب نے ’’قانون ‘‘ کے مطابق چیزیں اپنے پاس رکھیں۔ قانون ہی ایسا ہے جو کہ صرف حاکم وقت کو فائدہ دیتا ہے ، فائدہ اٹھانے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ دیگر سیاستدان بھی شامل ہیں۔ قانون کی ایک شق یہ بھی ہے کہ توشہ خانہ کی اشیاء خریدنے والوں کو اپنے ذرائع آمدن ظاہر کرنے ہوتے ہیں اس پر ٹیکس بھی لاگو ہوتا ہے جو کہ کاغذوں کے علاوہ آج تک عملی طور پر لاگو ہوتا نظر نہیں آیا۔