گزشتہ روز،روزنامہ 92 نیوز میں یہ خبرپڑھی کہ جی سی یونیورسٹی کو پبلک پالیسی اینڈ گورننس کی نئی ڈگری کے اجراء کی اجازت مل گئی ہے۔ جس کے سبب انہیں اس مضمون میں بھی ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی کرانے کی اجازت میسر آگئی ہے۔ میں ذاتی طور پر پبلک ایڈ منسٹریشن، پبلک پالیسی اور مینجمنٹ اور بالخصوص لیڈر شپ وغیرہ کی تدریس، تعلیم اور ترویج کو اہمیت دیتا ہوں کہ نسلِ نو کو یہ مضامین ضرور پڑھنے چاہئیں تاکہ ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوں۔ عمومی زندگی میں دیکھا گیا ہے کہ بہت بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے نوجوان، چار لوگوں کو مینج کرتے ہوئے دِقت میں پڑجاتے ہیں، کوئی صورتحال بگڑ جائے تو اْن کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ لیڈرشپ کا مطلب محض کوئی سیاسی، عسکری یا دینی قیادت ہی نہیں ھوتی اور نہ ہی اس کا مفہوم قومی یا صوبائی قائدین تک محیط اور محدود ہے۔ بلکہ لیڈرشپ اور قیادت تو ایک خاندان، خانقاہ، برادری، قبیلے، طبقے، ادارے، محکمے اور محلے کی بھی ہوسکتی ہے۔ ایک تاثر اور تصوّر یہ بھی ہے کہ لیڈر اور قائد تو محض پیدائشی ہوتا ہے۔ یہ کوئی کتابی چیز نہیں کہ آپ مختلف کورسز اور ڈگریوں کے ذریعے یہ خواص اپنے اندر پیدا کر سکیں۔ بلاشبہ لیڈرشپ کی سب سے اعلیٰ کوالٹی یہی ہے۔ اپنے برگزیدہ بندوں، جن کو اللہ تعالیٰ مخلوق کی راہنمائی کے لیے بھیجتا ہے، وہ لیڈر شپ کی اعلیٰ ترین خوبیوں سے متصف ہوتے ہیں۔ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے عظیم ترین قائد اور لیڈر،جنہوں نے اپنی لیڈر شپ سے وہ انقلاب برپا کیا، جس کی مثال تاریخ عالم میں دشوار ہے۔ جن کی لیڈرشپ کا ایک اہم اور بنیادی فلسفہ یہ بھی تھا کہ جب کسی مہم جوئی کا کوئی مرحلہ درپیش ہو تو پھرھرایک ٹیم ممبر کے طور کا م کرے یا پھر اس سے بھی بڑھ کر، کہ 5 ھجری کو غزوہء خندق میں ، خندق کھودنے کامرحلہ درپیش ہوا تو اس میں صحابہ کرام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح سرگرم عمل ہوئے، بلکہ جو مشکل مرحلہ درپیش ہوتا، جہاں کوئی چٹان کسی سے نہ ٹوٹتی،وہاں یہ عظیم قائد اپنی گینتی اور کدال کے ساتھ،ا ز خود تشریف فرما ہوتے اور ہر لیڈر مشکل حالات میں اْمید کی کرن اور روشنی کی نوید ہوتا ہے۔ پورا عرب مدینے کی چھوٹی سی بستی کوملیامیٹ کرنے کے لیے حملہ آور ہے، جس کے دفاع کے لیے مدینہ منورہ کے گرد خندق کھود کر دفاع کرنے پہ مجبور ہیں۔ وجودِ اَطہر مٹی سے اَٹا ہوا ہے۔ لیکن اْمید، روشنی اور تابناک مستقبل کے مژدے کا یہ عالم ہے کہ پتھر پر اتنی زور سے ضرب لگائی کہ اس میں روشنی برآمد ہوئی ۔فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے ملک شام کی کنجیاں عطاکردی ہیں۔ چٹان سخت تھی گینتی کی ایک اور ضرب لگائی، آگ اور روشنی نکلی فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایران یعنی کسری کی کنجیاں عطا کردیں۔ تیسری ضرب سے باقی ماندہ چٹان بھی ریزہ ریزہ ہوگئی فرمایا مجھے یمن کی کنجیاں مرحمت کردی گئیں۔ ظاہر ی حالات تو کسی سے مخفی نہ تھے۔ ان نازک حالات میں فتح و کامرانی کی نوید اور زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ عطا کیا۔ لیڈرشپ کی کوالٹی یہ بھی ہے کہ محض ٹیم ممبر ھی نہ ہو، بلکہ اپنا خوردو نوش اور قیام و طعام بھی اپنی قوم جیسا اور قوم کے ساتھ ہی رکھے۔ اگرفاقہ کشی سے صحابہ نے ایک ایک پتھرباندھا تو آپ نے کمر کوسیدھارکھنے کیلئے دوپتھر باندہ رکھے تھے ،اسی غزوہ خندق میں ایک صحابی حضرت جابر ؓ نے جب فاقہ کشی کا عالم دیکھا تو صبر کایارانہ رہا، گھر جاکر اپنی اہلیہ سے احوال بیان کئے اور کھانے کے سامان کی بابت دریافت کیا۔ بتاگیا کہ چند سیر جوع اور ایک بکری کا بچہ موجود ہے، حضرت جابرؓ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ کھانے کی تیاری کرو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آج شام کا کھانا پیش کروں گا۔ اہلیہ نے کہاکہ مجھے شرمندہ نہ کروانا، کھانا از حد محدود ہے۔ شوہر نے تسلی دی۔ فکر نہ کرو، راز داری سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے آؤں گا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں،میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درخواست پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرماتے ہوئے، لشکر میں اعلان فرما دیا کہ جابرؓ کی طرف سے کھانے کی دعوت ہے۔ گویا لیڈر اور قائد اپنے ورکرز کو تنہانہیں چھوڑتا، بالخصوص جب کوئی آسودگی اور آسانی کا مرحلہ آئے۔ پھر حضرت جابر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا فکر مند نہ ہونا، بس میرے آنے سے پہلے ہنڈیا چولہے سے نیچے نہ اْتارنا اور نہ ہی روٹیاں پکانا شروع کرنا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے دس آدمیوں کا کھانہ دس سو میں تقسیم ہوا، پھر بھی بچ گیا۔" لیڈر" اجتماعی زندگی اور مجموعی ماحول کو اپنے جِلو میں لے کر آگے بڑھتا ہے۔ اپنے کارکنوں اور ورکروں سے اپنی زندگی اور اس کے امور کوبہت زیادہ الگ نہیں ہونے دیتا، پرائیویٹ زندگی اور پبلک لائف کے درمیان خط کھینچنے کا قائل نہیں ہوتا۔ سیر تِ طیبہ اور اسوہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار واقعات ایسے ہیں۔ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ ناز سے صحابہ کرام نے روایت کیا۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اْسے حجرہ اقدس لے گئے اور وہ کہتا ہے کہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس حجرے کا کْل اثاثہ ایک بچھونا اور سرہانہ تھا جو کھجور کے پتوں سے بنا ہوا تھا۔ ازخود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ اور بالخصوص خلفائے راشدین لیڈر شپ کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ حضرت عمر ؓ کے عہدِ خلافت اور آپﷺ کی ریفارمز کو جدید سول ایڈ منسٹریشن کی بنیاد قرار دیا جاتاہے۔ صوفیاء اور صلحا بڑے جینئس اور عبقری تھے، حضرت داتا گنج بخشؒ لاہور تشریف فرما ہوئے تو ایک اجنبی تھے۔ اس خطّے کو انہوں نے کس طرح متاثر کیا۔ بھٹی راجپوتوں کا مسکن، بھاٹی دروازہ جب آپؒ کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز پیش ہوئی توآپؒ نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ یہاں پر بھٹی راجپوت پہلے سے مقیم ہیں۔ یہ اْن کا ہی حق ہے۔ ایسی رواداری اور وسعت ِقلبی و اعلیٰ ظرفی سے پھر بڑے نتائج تو برآمد ہوتے ہیں، اور وہ یہ کہ پورا خطّہ آپؒ کے نام ِ نامی سے منسوب ہوگیا۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ترائن کی دوسری لڑائی سے فتح یاب ہونے کے بعد، کس طرح شہاب الدین محمد غوری کی راہنمائی کی اور مقامی آبادی سے اس کو حْسنِ سلوک کا پابند بنایا۔ از خود انہوں نے لاہور میں قیام فرمائی کی بجائے شمالی ہندوستان میں ہندو راجپوتوں کے مشکل ترین مرکز کا انتخاب کر کے پر تھوی راج کے قلب میں جاکر ڈیرہ لگایا۔ اور برصغیر میں بڑے سماجی انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح بنیادی طور پر وکیل تھے، لیکن ایک پیدا شدہ صورتحال کے سبب قوم کی قیادت اور لیڈرشپ ان کے ذمّے آگئی، اور پھر انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔