بھارت کا الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پاکستان کے خلاف جس پیمانے پر منفی پراپیگنڈا ،اور من گھڑت مہم جوئی کر رہا ہے، پاکستان کے خلاف ہرسطح پر مہلک اور زہریلا پراپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے۔پا کستان میں رنگ ونسل ،زبان اور علاقائی و قومیت پرستی کے زہرناک رجحانات کو بڑھاوا دینے کے لئے بھارت کا الیکٹرانک اورسوشل میڈیا جس طرح اپنے شب وروزایک کئے ہوئے ہے۔ اس کا بھرپور جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ الیکٹرانک میڈیاکے ساتھ ساتھ بھارت نے سوشل میڈیا پرمقامی ذات اور قبائلی ناموں سے جعلی آئی ڈیز بنا کر پراپیگنڈے کے لئے صفحات اور گروپ بنارکھے ہیں جن پرمنفی اشتہارات،تصاویر اورسنسنی خیز مواد اپ لوڈ کیاجا رہا ہے ۔ جن پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جا رہا ہے ان میں ویب سائٹس بلاگز و سمارٹ فونز اینڈ چینلز، یوٹیوب اور بہت سی دوسری ویڈیو سائیٹس، ٹویٹر انسٹاگرام اور واٹس ایپ، فیس بک آئی ڈیز پیجز اینڈ گروپس نمایاں ہیں۔اگرچہ پاکستان کے اندر بھارت کے اس پلیٹ فارم سے منفی پروپیگنڈے کاکوئی اثر قبول نہیں کیا جاتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سب کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا کوگویا سانپ سونگ گیا ہو ۔ پاکستان کا میڈیا بھارتی میڈیا کا عشروعشیرمقابلہ نہیں کر پا رہا۔ مانا کہ بحیثیت مسلمان ہرگز جھوٹ کامقابلہ جھوٹ سے نہیں کیا جا سکتا مگر پاکستان کا میڈیا بھارتی میڈیاکے زہرناک بے بنیاد پراپیگنڈے کامقابلہ حقائق کی بنیاد پرکیوں نہیں کرتا ۔ پاکستان کے میڈیا کے سامنے اس وقت بھارت کا تازہ ایشو منی پور کے بدترین حالات ہیں۔ منی پور میں دہلی اورمنی پورکی بی جے پی سرکار مل کر کس طرح مسیحیوں کا قتل عام کر رہی ہے ۔کس طرح ان کے گرجا گھروں،گھروں اوراملاک کو نذر آتش کیاجا رہا ہے ۔ ریاست کی اقلیت مسیحی جان بچانے کے لئے پناہ گزین کیمپوں میں بسیرا کرنے پر مجبورہیں۔ مئی 2023ء میں مسیحی کش فسادات شروع ہوئے جو ہنوز جاری ہیں۔تازہ اعدادوشمار کے مطابق اب تک یہاں 200 سے زائد لوگ ان فسادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 4000 گھروں کو آگ لگا دی گئی، 250 گرجے جلائے دیئے گئے، 35000 مسیحی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور 1200 گائوں کے لوگ اپنے علاقوں کوچھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ منی پور میںبھارتی فوج کی تعیناتی کے باوجود تشدد جاری ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ منی پور میںفسادات کی ذمہ دار دہلی سے منی پور تک بی جے پی کی حکومت ہے۔ جب وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ خود امت شاہ کے ساتھ پہاڑیوں کے دورے پر نہیں گئے، ککی مسیحی اراکین اسمبلی نے امپھال آنے یا وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس میں دورائے نہیں کہ منی پور کے حالات ایسے سنگین ہیں کہ مودی رجیم کے پاس کوئی مرہم نہیں کہ جسے منی پور کے مسیحیوں کے گائو بھر سکے۔ مسیحی متاثرین کی آبادکاری اور انھیں معمول والی زندگی شروع کرنا ایک چیلنج ثابت ہوگا۔پہاڑی مسیحیوںکا کہنا ہے کہ وہ اب ہندو میتئی پڑوسیوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ مستقبل میں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ دوسری طرف پہاڑیوں میں بسے ہندو میتئی طبقہ علیٰ الاعلان کہہ رہا ہے کہ وہ ککی مسیحیوں کواس علاقے میںواپس نہیں آنے دیں گے ۔سوال یہ ہے کہ اب ایک ہی ریاست میں ایک ہی نظام کے تحت پھر سے دونوں مذاہب کیماننے والے ہندواورمسیحی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟ مبصرین کاکہنا ہے کہ منی پور میں خانہ جنگی ہے اور بی جے پی اسے بڑھا رہی ہے۔ یہ سب دہلی اورمنی پورکے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔اپریل 2023ء کو بی جے پی کے حامی ہندوفسادی گروپ میتئی گروپ کے چیف میتئی لیپون نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’جنگلوں کو کاٹ دو، ندیوں کو خشک کر دو، ککی ختم کر دو... آئو ہم پہاڑیوں پر اپنے روایتی مخالف کا صفایہ کریں اور اس کے بعد امن سے رہیں۔‘‘ اس کے بعد یہ شوشہ چھوڑاگیاکہ ارمبئی ٹینگلو اور میتئی لیپم جیسی میتئی ہندوفسادی تنظیموں نے مبینہ طور پر امپھال پولیس ٹریننگ سنٹر پر چھاپہ ماری کی اور اسلحے لوٹ لیا۔ دراصل تھانے بلاکر انھیں اسلحہ دیاگیا ہے۔ بی جے پی بیرین سنگھ کو وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر بدستورقائم رکھنا چاہتی ہے۔حالات کی حدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ منی پور میں مئی کے آغاز سے آج جون کے وسط تک انٹرنیٹ پربدستور پابندی عائد ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے فیس بک پیج پر ککی مسیحیوں کوجنگلی اور غیر قانونی گھس بیٹھئے کہا۔ اس طرح کے بیان داغے جانے سے انھوں نے میتئی لوگوں کو مشتعل کیا اور قبیلوں کو الگ تھلگ کر دیا۔ دراصل مارچ 2022ء میں وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی دوسری مدت کار کے بعد سے بیرین سنگھ نے بغیر مشورہ کے سخت پالیسیوں کو آگے بڑھایا ۔ گزشتہ دنوں جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ 29 سے 31مئی کو متاثرہ منی پور گئے انہوں نے نگ پوکپی اور چراچندپور سمیت دیگر پہاڑیوں کا دورہ کیا، اس وقت بھی ککی گائوں میں آگ لگائی جا رہی تھی جبکہ بڑی تعداد میں مسیحی ککی،چن قبائلیوں کے لوگ میزورم، میگھالیہ کی راجدھانی شیلانگ سمیت مختلف علاقوں پر اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لے رہے تھے۔مگر امیت شاہ اس کے خلاف دو بول بھی نہ بول سکے۔امپھال کے دورے کے دوران (INDIGENOUS TIRBAL LEADERS FORUM ) کے جنرل سکریٹری موان ٹامبنگ نے ملاقات میں امیت شاہ دو ٹوک کہا کہ ککی’’مسیحی پہاڑی لوگوں‘‘ کے پاس لائسنس والے اسلحے ہیں جبکہ میتئی ’’ہندوپہاڑی لوگوں‘‘کے پاس نہیں۔ جو سراسر جھوٹ تھااور یہ جھوٹ اگلے روز تھانے سے اسلحہ چرانے کے لئے بولاگیا۔ تھانے سے چرائے گئے اسلحہ میتئی ’’ہندو پہاڑیوں کے پاس دیکھاگیا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ بہرکیف !ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی میڈیائی تخریبی پراپیگنڈا کا بھرپورمقابلہ پاکستانی الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے ذریعے کیا جائے۔ دنیاکو بتایا جائے کہ بھارت میںاقلیتیں انتہائی تکلیف اورمشکل میںاور عتاب کی شکار ہیں۔جب ہندوچاہتے ہیں حکومتی مشینری کی بھرپور حمایت سے ان پرچڑھ دوڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر طلبائ‘ نوجوانانان پاکستان بھارت کو منی پور کے ایشو پرخوب ایکسپوز کرنا چاہئے۔ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی بھی بھارت کے منفی پراپیگنڈے کا بھر پور اورجارحانہ انداز میں اس کا جواب دیں۔