اتوار کی صبح آرام و استراحت اور بے فکری کے حوالے سے ایک اپنا ہی لطف اور کیف رکھتی ہے، بالخصوص ماہِ رمضان المبارک میں، اس وقت کی نیند کا بڑا مزا ہے، لیکن گزشتہ روز عین انہیں لمحوں میں لاہور کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک اہم اجلاس منعقد کر رکھا تھا۔ جہاں لاہور کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے تعمیراتی و ترقیاتی منصوبہ جات کی پیش رفت سے آگاہی مقصود تھی۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس وقت، اس نوع کے منصوبوں میں اوقاف سر فہرست ہے۔ داتادربار کی تزئین و تدوین کے حوالے ایک نہایت وقیع اور شاندار پراجیکٹ کی فزیبلٹی حتمی مرحلے میں ہے،جس میں دربار شریف کی توسیع کے لیے محراب کے ساتھ بلال گنج والی سائیڈ پر رقبہ تعدادی 5کنال، 15 مرلے، پرائیویٹ مالکان سے ایکوائر کرنے کے لیے،لینڈ ایکوزیشن ایکٹ سیکشن 4کے تحت گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر لاہور نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس قطعہ اراضی کے حصول کے بعد شمال غربی سمت میں دربار شریف کی توسیع سے بالخصوص لنگر خانہ سمیت دیگر امور بسہولت کشادہ کیے جاسکیں گے۔ اسی طرح دربار روڈ کی طرف گولڈن گیٹ کے ساتھ، بجانب بجنوب، رقبہ تعدادی 17 کنال 4 مرلے، جو کہ پہلے ہی سے محکمہ اوقاف کی ملکیت ہے، کو واگزار کروانے کے لیے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مقامی آبادی سے گفت و شنید جاری ہے، جس پر انشاء اللہ عیدالفطر کے بعد مثبت پیش رفت متوقع ہے، یہ ایریا کسی دور میں لاہور کے ایک معروف صنعت کار میلارام کے زیرتصرف، اور اسی سمت میں اس کی ایک فیکٹری تھی، گزشتہ صدی کے اوائل میں یہیں سے دربار شریف کے لیے بجلی کی ترسیل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔اسی طرح دربار شریف کی کارپارکنگ جو گزشتہ بارہ سال سے مقفل تھی، اس کو فعال بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے کر، اس کو فوری طور پر فنگشنل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ کمیٹی موثر انداز میں سرگرم ِ عمل ہے۔ دو روز قبل عین جمعتہ المبارک کے موقع پر اس ضمن میں نیسپاک کی طرف سے، ہجویر ی ہال داتادربار میں فزیبیلٹی سٹڈی اور پریذنٹیشن کا اہتمام تھا۔ جبکہ مسجد اور دربار شریف کے وسیع و عریض احاطے اور عظیم الشان اجتماع میں باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰؓ کے یومِ شہادت کی مناسبت سے منعقدہ وقیع کانفرنس جلوہ آرا تھی۔ جہاں پر راقم ورطہ حیرت میں تھا کہ خطہ پنجاب اور اسلامیانِ بر صغیر علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒکے احوال و کمالات، افکار و تعلیمات اور علوم و معارف کے سامنے دم بخود اور ان کے ممنونِ احسان ہیں کہ جن کے سبب یہاں دین ِ اسلام کو تابندگی اور تابانی میسر آئی۔ وہ عظیم المرتبت اور جلیل القدر ہستی جو باب مدینۃ العلم کے استعارے اور اشارے سے متصف ہوئی، اس کے فضائل و کمالات تک رسائی کس طرح ممکن۔۔۔۔ 21رمضان المبارک …معتبر تاریخی روایات کے مطابق ،باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فْزتْ برب الکعبہ (رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہوا) کہتے ہوئے ،کوفہ کی جامع مسجد میں ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کے زخموں کے سبب ،مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ آپ کے صاحبزادہ حضرت سیّدناامام حسن المجتبیٰؓ نے اس موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: لوگوں تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوگیا ،جس سے علم وفضل میں نہ اس سے پہلے کوئی آگے بڑھ سکا ، اورنہ بعد میں آنے والے اس کی برابری کرسکیں گے ،یہ وہ تھے ،جن کو رسول اللہﷺ جھنڈا عطا کرکے رخصت کرتے تو وہ فتح مند لوٹتے ،اس نے اپنے ترکے میں سونا ،چاندی وغیرہ کچھ نہیں چھوڑا۔ حضرت اقبال ؒنے مثنوی ’’ اسرارِ خودی ‘‘میں’’ اسرارِ اسمائے علی المرتضیٰ ‘‘ عنوان کے تحت، آپؓ کی بار گاہ میں ہدیہ محبت ومودت پیش کرتے ہوئے کہا تھا : ذاتِ اْو دروازئہ شہرِ علوم زیر فرمانش حجاز و چین و روم یعنی آپؓ کی ذات شہر علوم نبوت کا دروازہ ہے اور حجاز، چین اور روم آپ کے زیر نگیں اور زیرفرمان ہیں۔ حضرت اقبال کا معروف شعر : خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانشِ افرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف اقبال جب حصول علم کے لیے لندن روانہ ہورہے تھے ،تو اْس وقت بھی نجف الاشرف کی طرف رْخ کرکے یوں ملتجی ہوئے تھے : کرم، کرم کہ غریب الدیار ہے اقبال مریدِ "پیر نجف "ہے ، غلام ہے تیرا شہنشاہ ولائیت ،امام الاولیائ، حضرت علی المرتضیٰؓ کے درِ اقدس نجف الاشرف کی حاضری کی تڑپ لیئے پانچ سال قبل، انہی ایام میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز کے ذریعہ جب عراق کی حدود میں داخل ہوئے ، تو نجف اشرف کی حاضری کے ا حساس نے جہاز کی فضا کو معمور کردیا، تآنکہ جہاز کے پائلٹ نے اعلان کیا ، ہم کچھ ہی دیر میں نجف اشرف ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں ، وہ مسافر، جن کی کھڑکی جہاز کے دائیں جانب کھلتی ہے وہ اس وقت حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے روضہ کا سنہری کلس او ر روشن اور تابدارگنبد کودیکھنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں ،خوش قسمتی سے کالم نگار بھی اس اعزاز سے بہرہ مند ہوا ،اور نظروں ہی نظروں سے آپ کے درِ اقدس کو بوسہ دیا اور ایک مرتبہ پھر حضرت اقبال مدد کو آئے اوران کا یہ شعر زبان زدِ حال ہوا: سْنا ہے صورتِ سینا ، نجف میں بھی اے دل کوئی مقام ہے غش کھا کے گرنے والوں کا نجف اشرف عراق کے صوبہ کربلا کا سرسبز وشاداب اور پْر رونق شہر ہے، جسے انتظامی طور پر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا درجہ حاصل ہے۔ نجف اشرف کی قدامت کا اندازہ ا س امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روایت کے مطابق حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے مزارِ اقدس کے ساتھ ، حضرت نوحؑ دفن ہیں ، جن کو آدمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ ان دو عظیم المرتبت اورجلیل القدر ہستیوں کے مزارات کے سبب ،اس مقام کو نجف شریف کی بجائے ’’نجف الاشرف‘‘ کہا جاتا ہے۔ نجف اشرف کی’’ وادی السلام‘‘ میں تاریخ انسانیت کا قدیم ترین اور وسیع وعریض قبرستا ن ہے ، جس میں حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام کی قبریں ہیں۔ اس قبرستان میں یقینی طو رپر حضرت ابوموسیٰ اشعری جیسے جلیل القدر صحابہ کے علاوہ، دیگراْولو العزم ہستیاں بھی آسودہ ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ ،سیرت نبویہ کے مظہر اَتم ، اخلاق نبوی کے آئینہ دار ، ظاہری وباطنی علوم میں رسول اللہﷺ کے امین ،راز دار اور علم وحکمت ،شجاعت وبسالت اور فقر ودرویشی میں اپنی مثال آپ تھے۔۔۔ خشیتِ الٰہیہ کایہ حال تھا کہ ساری ساری رات مصلیٰ پربیٹھے محو عبادت رہتے۔۔۔ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں لے کر بار گاہ خدا وندی میں آہ وزاری کرتے اور تڑپ تڑپ جاتے۔۔۔ سادہ معمولی لباس اور سوکھی اور سخت غذا استعمال کرتے۔۔۔ آپ کا دارالخلافہ عراق(کوفہ ) میں تھا، مگر وہاں کی غذا سے پرہیز کرتے اور خاص احتیاط سے ستو وغیرہ مدینہ منورہ سے منگواتے اور وہ بھی بہت کم کھاتے۔۔۔ فقر وفاقہ کا غلبہ تھا۔ ایک مرتبہ سردی میں ٹھٹھر رہے تھے ، عرض کی گئی ، بیت المال سے کمبل لے لیں۔۔۔ فرمایا ، مسلمانوں کے مال میں کمی اور نقصان مجھے گوارا نہیں۔۔۔(جاری ہے)