پاکستان کے منظرنامے پر ہمیں ایک ظالمانہ قسم کا تضاد دکھائی دیتا ہے ۔تاریخ کے بدترین سیلاب سے کروڑوں غریب پاکستانی کی زندگیاں تہہ بالا ہوچکیں اور عالمی سطح پر یہ احساس بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی معافی میں سہولت دی جائے کہ لاکھوں غریب پاکستانیوں کی بحالی اور آباد کاری کا ہمہ جہت مرحلہ درپیش ہے۔دوسری طرف ان حالات میں لا یعنی ضمنی انتخابات کا سیاسی ڈرامہ رچایا گیا۔ کروڑوں روپے اس لاحاصل سر گرمی کی نذر کر دئیے گئے مگر ایک لیڈر کی کھڑکی توڑ مقبولیت پر مہر تصدیق ضرور ثبت ہوچکی۔ہمارے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ پر صرف سیاسی کی خبریں دھمال ڈالتی نظر آتی ہیں۔ صورت احوال یہ ہے کہ سیلاب کا پانی اتر چکا ہے مگر سیلاب متاثرین کی زندگیاں نارمل نہیں ہوسکیں۔ سوا تین کروڑ پاکستانی بحالی کے ہمہ جہت کام میں مدد کے منتظر ہیں۔مین سٹریم میڈیا میں بھی مسائل اسی وقت تک خبروں کا حصہ رہتے ہیں جب تک سوشل میڈیا کی نظر کرم اس پہ رہے اور یہ سوشل میڈیا ٹرینڈز کا حصہ بنی رہیں۔ سو اس وقت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر صرف ایک ہی چیز کا بھنگڑا جاری ہے کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ الخدمت،اخوت ،اور چند دوسری ویلفئیر تنظیمیں فوکسڈ ہیں اور بحالی کے کام پر توجہ کیے ہوئے ہیں۔چند روز پیشتر چئیرمین الخدمت فاؤنڈیشن جناب عبدالشکور نے لاہور آفس میں بحالی کے اگلے مرحلے پر بریفنگ کے لیے مدعو کیا۔میں ایک ناگزیر مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکی جس کاقلق ہے مگر بریفنگ کی تفصیل میڈیا پرسنز تک پہنچ چکی جسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں سمت کے تعین سے لے کر کام کی مناسب مینجمنٹ کا بحران شدید ہو اس پر طرہ یہ کہ ہر شے کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہو، وہاں کوئی اس قدر یکسو ہوکر درد مندی اور دیانت سے متاثرہ افراد کی خدمت میں مصروف رہے۔ اخوت اور الخدمت تو بڑی تنظیمیں ہیں خوش آئند بات یہ ہے کہ میدان عمل میں اپنی مدد آپ کے تحت بحالی کا کام کرتے لوگ اور جماعتیں بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیلاب متاثرین کو نارمل زندگی کی طرف واپس لانا، ان کے ملیامیٹ گھروں کو تعمیر کرنا صرف چند این جی اوز کا کام ہے۔یہ ایک منظر نامہ ہے اور دوسرا منظر حالیہ منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جن میں عمران خان آٹھ میں سے چھ نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھا کر پاکستان اور پاکستان کے عوام کو کتنا فائدہ ہوا؟ سوا تین کروڑ سیلاب متاثرین کو اس سے کیا غرض کہ آپ آٹھ کی آٹھ نشستیں بھی جیت جاتے۔ آپ کے ووٹر آپ سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ 5 ارب جو آپ نے ٹیلی تھون میں جمع کیے تھے وہ کہاں ہیں ؟ہمیں تو وہ کہیں متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے خرچ ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ تقریریں کرنا اعلانات کرنا اور واہ واہ سمیٹنا اور بات ہے اور لوگوں کی بحالی کے لیے کمر بستہ ہو جانا ایک اور طرح کی ریاضت ہے۔سوال الیکشن کمیشن سے بھی بنتا ہے کہ اس ساری ایکسرسائز پر کروڑوں روپیہ عوام کے ٹیکس سے ادا ہوا ۔کیا ٹیکس کا پیسہ اس لیے ہے کہ وہ ایک لیڈر کی انا کی تسکین پر خرچ ہو۔عمران خان پہلے ہی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ مگر پارلیمنٹ کو لفٹ نہیں کراتے۔ انہیں اپنی مقبولیت ثابت کرنے کا خبط ہے سو سڑکوں چوراہوں پر منعقدہ جلسوں میں سیاسی تقریریں کرتے ہیں۔اصولی بات یہ ہے کہ جو شخص پہلے ہی پارلیمنٹ کا رکن ہو اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی ہی نہیں چاہیے کجاکہ وہ آٹھ آٹھ سیٹوں پر الیکشن لڑے ۔اس ساری سرگرمی کا کیا فائدہ ہوا؟ خان صاحب اس میں سے کوئی سیٹ نہیں رکھ سکتے یہ سیٹیں عملی طور پر خالی کی خالی رہیں گی اور ان کے لیے ایک بار پھر ضمنی الیکشن کا ڈرامہ کرنا پڑے گا۔پاکستان کے 70/80فیصد لوگ متوسط، سفید پوش اور غریب طبقے سے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنی ہمت اور معاشی اہلیت سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ غریب اپنا پیٹ کاٹ کر ہر شے پر ٹیکس دے کر اور کبھی بجلی کے بلوں کی صورت حکومت کے خزانے کو بھرتا ہے۔میرے ہاں کام کرنے والی ایک ملازمہ جس کے گھر میں ایک بلب اور ایک پنکھا ہے وہ بھی مہینے کا دس ہزار بل دیتی ہے جس نے کبھی اتنی رقم اپنے گھر کے راشن پر نہیں لگائی۔ ان غریب پاکستانیوں کے ٹیکس کا کروڑوں روپیہ ایک شخص کی مقبولیت کو ثابت کرنے پر اجاڑ دیا گیا۔ یہ پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ عمران خان پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں نہیں جاتے ہیں۔ ان کی سیاست صرف ایک نقطہ پر گھومتی ہے کہ وہ ایک مقبول ترین لیڈر ہیں اور انہیں ہر صورت اقتدار میں ہونا چاہیے۔اس دائرے سے باہر ان کا رویہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والا ہے۔حالات یہ ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دیئے ہوئے ہیں ۔جن 11 لوگوں کے استعفے اسپیکر نے منظور کیے وہ عدالت سے رجوع کئے بیٹھے ہیں کہ ہمارے استعفے منظور کیوں کیے۔ ایک غیر جمہوری سیاسی تماشا ہے جس نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود کردی ہیں ۔اس پر لانگ مارچ کرنے اور اسلام آباد پر ایک بار پھر چڑھائی کرنے کی تیاری ہے۔پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انہیں اپنے سیاسی فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں ۔ اس وقت جب کہ سوا تین کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہیں کیا ان کا اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لئے طبل جنگ بجانا جائز ہے ؟آخر مقبول ترین سیاسی لیڈر کی بھی کوئی قومی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نہیں۔