آقائے دو جہاں ؐپر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو نزول وحی کی شدت سے آپ ؐ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ آپ نے بی بی خدیجہ ؓ سے اس کا ذکر فرمایا۔ بی بیؓ نے جواب میں جو کہا وہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ سرکارؐ کے اخلاق کے متعلق بی بی ؓنے فرمایا ’’آپﷺ عزیزوں اور رشتے داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں۔ ناتواں، بے کسوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ، اُسے دیتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ مصائب میں حق کے مددگار ہوتے ہیں اور آپ صادق القول ہیں۔ یہ واقعہ ہم نے بچپن میں درسی کتب میں پڑھا تھا۔ مگر 25 سال قبل ایک شخصیت سے ملاقات ہوئی اور اُن کی زبان سے یہ واقعہ دوبارہ سنا اور حیرت میں گم ہو گیا۔ مرزا قیوم صاحب کی باتوں سے آقائے دو جہاںؐ کی عقیدت اور محبت جھلک رہی تھی اور لگ رہا تھا کہ آپؐ مرزا قیوم صاحب کا آئیڈیل ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ بزنس مین ہیں۔مگر گفتگو سے معلم لگتے ہیں۔ کوچہ سیاست سے آشنائی ہوئی مگر جلد ہی اپنے اصل مدار میں آگئے کہ آج کی سیاست میں اخلاقیات مفقود ہے جبکہ ان کا مقصود شاید آئیڈیل سیاست تھی جو ہوتی ہی نہیں ۔ اس لیے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔ اُن کے دل پر سیاسی آقائوں نے وہ حسیں ستم کیے کہ مت پوچھیں۔ مگر آپ مسکراتے رہے۔ تواضع اور عاجزی آپ کی مسکراتی شخصیت کا لازمی جز ہیں۔ پھر سر جھکا کر اپنے آئیڈیل سرکار رسالت مآبﷺ کی سیرت ترتیب دینے میں جُٹ گئے۔ کاروبار اور سیاست دونوں سے بے نیاز ہوکر ۔ پیغمبرِ اسلام ؐ ۔ ۔ سیرت کی ایک خوبصورت کتاب ہے۔ مرزاقیوم صاحب نے عرصہ دراز کی محنت شاقہ سے اسے ترتیب دیا ہے۔ سیرت کی بے شمار کتابوں کے پہلو میں یہ کتاب ایک مختلف زاویے سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس زاویے میں تدبر اور تفکر دونوں جھلکتے ہیں۔ پروفیسر رفیق اختر صاحب کے مطابق سیرت ؐ کی یہ کتاب پڑھ کر قاری عہد نبویؐ کے زمان و مکاں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہر جملہ سامنے گزرتا ہوا لگتا ہے اور دل اس مسافر سیرت کے ساتھ شریک سفر ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب سات سو صفحات پر مشتمل ہے اور تحریر کا انداز سادہ ، دلکش اور دل نشیں ہے۔ بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ مصنف نے جب کتاب شروع کی تو ان کے سامنے یہ مسئلہ اور مرحلہ درپیش رہا ہوگا کہ اس موضوع پر کتابوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ تمام واقعات سامنے اور معلوم ہیں تو ایسا کونسا پہلو اور زاویہ سیرتؐ کے حوالے سے اپنایا جائے کہ بات کچھ نئی ، منفرد اور مختلف ہو جائے۔ مشہور اسلامی مفکر ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم فرماتے تھے :’’سیرت نبویؐ کا پیغام زمانۂ حال کے مطابق ایک ایسا موضوع ہے جس کا مفہوم مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔ ایسے میں یہ سمندر جیسا وسیع موضوع ہے۔ جب کوئی صاحب قلم اس موضوع کی طرف بڑھتا ہے تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا بیان کروں اور کیا نہ بیان کروں۔ کتاب کے مصنف بھی یقینا اس مشق اور سوچ بچار سے گزرے ہوں گے۔ مگر ان کا خلوص اور عشق رسول ؐ انہیں اس مشکل وادی سے بڑی آسانی سے گزار کر لے گیا۔ اس کتاب کو آپ شروع کریں تو کئی جگہ آپ رک جاتے ہیں۔ آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آپ سیرت کے حیرت انگیز پہلوئوں میں کھو جاتے ہیں۔ سب تو نہیں مگر کچھ اس کتاب سے آپ کی نذر : اہل عرب جب اپنے کسی بھائی کو دکھ اور تکلیف میں دیکھتے تو اسکی تسلی اور تشفی کے لیے کہتے ’’جس دکھ یا مصیبت نے تجھے دل گرفتہ کر دیا ہے، اس عرصہ غم میں اگر تم اللہ کے حبیبؐ کی حیات طیبہ میں درپیش دکھ کے لمحات اور صدمات کو یاد کرو تو تمہیں اپنی تکالیف اور غم چھوٹے نظر آئیں گے۔ اس کتاب میں سرکارؐ کی حیات طیبہ کو مسلسل اور مربوط انداز میں بیان کرنے کی بجائے سیرت کے واقعات کو مضامین کی شکل میں ترتیب دیا گیا ہے تاکہ عام قاری اپنے رول ماڈل کی 23 سالہ زندگی کے نمایاں واقعات کو جان لے۔ انسانی معاشرہ کسی بھی عہد کا ہو اسکی تعمیر، ترتیب اور تشکیل کا سب سے طاقتور ذریعہ سرکار دوجہاںﷺ کی سیرت ہی ہے۔ سیرت طیبہ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے مشکلات اور آزمائش کی گھڑیوں میں آپ کا صبر ، تحمل، ثبات اور استقامت مشعل کا کام دیتے ہیں۔ سیرت کی اس کتاب میں عقیدت ، محبت ، خلوص، سلاست، روانی بھی ہے اور خوبصورت نثر بھی۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ کائنات کی سب سے محبوب ہستی پر لکھنے کی سعادت اللہ کریم نے انہیں عطا کی۔ مصنف کو سرکارﷺ سے محبت ہے اور وہ ان کی شخصیت میں جھلکتی بھی ہے۔ اللہ پاک ہمیں سرکارﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے اور اس سے انسپائریشن لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ مگر اُمت مسلمہ کی بات بگڑ رہی ہے۔ شاید محبت خام ہے یا نیت میں نقص؟ آئیے سب آقاؐ کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ اپنی اپنی زندگیوں میں، اپنے اپنے زاویوں میں، اپنے اپنے خیال میں۔ پہلی ترجیح سرکار رسالتﷺ کے اخلاق کو دیں تو شاید نہیں یقینا ہم سب سنور جائیں گے۔ محبت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور عقل کے تقاضے کچھ اور۔عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔ مگر دل اگر اللہ کی محبوب ترین ہستی کی محبت میں بھیگا ہو تو بات بن جاتی ہے۔ سیرت لکھنے کی توفیق اسی کو عطا ہوتی ہے جس پر آقاؐ کی نظر ہو۔یہ سعادت ہے، مبارکباد کی مستحق ہے۔ حضورؐ ،آپ جو سن لیں تو بات بن جائے حضورؐ، آپ جو کہہ دیں تو کام ہوجائے