افسوس کہ ایک دن کے الیکشن نے ہمارے سارے نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔کون سا ادارہ ہے جس نے اپنا وقار دائو پر نہیں لگایا۔ کون سا شخص ہے جس نے شرم اور حیا کو بالائے طاق نہیں رکھا۔ کیریکٹر سیاست میں سیاست دانوں کا سب سے پہلا وصف ہوتا ہے۔ کسی بڑے اور آزمودہ سیاستدان میں کسی کو یہ چیز نظر آئی ہو۔سیاست کو ایک کھیل کی طرح سمجھا جاتا ہے جس میں ہار جیت تو ہوتی ہے مگر ہر چیز کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا جاتا۔کرکٹ میں بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ایمپائر نے ایک شخص کو آئوٹ نہیں دیا مگر وہ شخص یہ کہہ کر کہ وہ آئوٹ تھا ، ایمپائر دیکھ نہیں سکا ، میدان سے چلا گیا ۔ دنیا آج تک ایسے عظیم لوگوں کے گن گاتی ہے۔مگر ہمارے لیڈروں کو اپنی ذات کی عظمت سے نہیں اقتدار سے پیار ہے۔ وہ حرص میں ہر سطح تک جا سکتے ہیں۔ وہ جھوٹے وعدوں پر الیکشن لڑتے اور صرف اپنی ذات کے لئے سب کچھ کرتے ہیں۔ان کی حقیقت بارے اس الیکشن سے عیاں ہو گیا ہے۔ ہمارے ادارے ، کونسا ادارہ اپنی ساکھ بچا پایا ہے۔کسی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ آٹھ فروری کے دن ووٹ کا استعمال جس طرح ہوا وہ ان کے رویوں کا جواب تھا۔ عوام نے انہیں ان کی اوقات بتا دی مگر کمال ڈھٹائی ہے کہ نو فروری کو جو ہوا وہ شاید اداروں نے رد عمل دیا اور عوام کو ان کی اوقات دلانے کی کوشش ہے۔عوام سے مقابلے پر آ گئے ہیں۔ مگر اداروں کی یہ کوشش ہر صورت ناکام رہے گی۔ادارے عوام کے لئے ہوتے ہیں ، عوام سے مقابلے کے لئے نہیں۔اداروں کو قوت اور طاقت عوام فراہم کرتے ہیں۔ عوام کا ساتھ نہ ہونا ان کی ناکامی ہے۔ عوام کی طرف سے ٹھکرائے جانے والے جعلی منتخب سیاستدانوں کو پتہ ہے کہ وہ مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کرسکے، انہوں نے کمال دکھایا ہے، مگر انہیں یقین ہے کہ عدلیہ ان کا ساتھ دے گی اور ان کے کیس کا فیصلہ پانچ سال بعد ہو گا۔جو کاغذوں میں جیت گیا سو جیت گیا۔ہیرا پھیری کے باوجود وہ پوری ٹرم گزار جائیں گے۔ عدالتیں ان کے کیس سے کھیلتی رہیں گی۔ عدلیہ کے وہ لوگ جنہیں اپنے انصاف پر ناز ہے اور جو سمجھتے ہیں کہ کل انہیں اﷲکو بھی جواب دینا ہے، تمام متنازعہ کیسوں کا فیصلہ آسانی اور ایمانداری سے دس دن میں کر سکتے ہیں مگر ایسا ہو گا نہیں،یہی وجہ ہے کہ تمام تر سیاست دان جو منتخب ظاہر کئے جا رہے ہیں، لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ ملک کے حالات اچھے نہیں اور انہیں ان حالات میں مجبوراً ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی پڑ رہی ہے اس لئے ہمارا ساتھ دیں۔شور نہ کریں ، صبر سے کام لیں۔وہ جلدی وزیر بننے کے چکر میں ہیں کہ وزیر بن کر مفادات کا تحفظ بہتر ہو جاتا ہے ، عدالتیں بھی بہتر احترام دینے لگتی ہیں، ان کا کیس لٹکانے میں ان کی مدد گار ہوتی ہیں۔ اصل میںان سیاستدانوں کو ملک کی نہیںاپنی سیاست کی فکر ہے ، اپنی جعلی جیت کی فکر ہے کہ یہ جیت ہر وقت خطرے میںہوتی ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ فوری اقتدار انہیں مل جائے تو وہ اپنے غلط الیکشن کو تحفظ دے سکیں۔حالانکہ جب آپ عوام کا ساتھ نہیں دے سکتے تو عوام سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہوئے بھی آپ کو کچھ شرم آنی چائیے ۔ عوام تو خودآپ سے جان چھڑانے چائتے ہیں مگر آپ وہ کمبل ہیں کہ جو نہ عوام کو چھوڑتے ہیں نہ اقتدار کو۔ راولپنڈی کے کمشنر نے ان کی امیدوں پر ایک شاندار کیل ٹھونکی ہے۔ اسنے اس ساری کھیل کی حقیقت بیان کر دی ہے۔کمشنر صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے قومی اسمبلی کے تیرہ حلقوں کے نتائج تبدیل کئے۔ستر ستر ہزار کی لیڈ والوں کو شکست دلوائی۔آج بھی جعلی مہریں لگا رہے ہیں۔ا نہوں نے کہا کہ میں نے پنڈی ڈویژن سے نا ا نصافی کی ہے۔میں نے جو ظلم کیا اس کی سزا مجھے ملنی چاہیے۔میرے علاوہ بھی جو اس میں ملوث ہو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔جو کام میں نے کیا وہ کسی طرح بھی مجھے زیب نہیں دیتا۔میں اپنے عہدے اور سروس سے استفیٰ دیتا ہوں ،ہمیں ملک سے غداری اور بے ضمیری نہیں کرنی چاہیے۔میں اس دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے ساتھ شریک ملزم ٹھہرایا اور اپنے سمیت سب کو پھانسی کا حقدار قرار دیا۔ جواب میں ایک سیاستدان کہتے ہیں وہ کیا تھا، نہ آر او اور نہ اے آر او ۔جی ہاں وہ ایسا کچھ نہیں تھا مگر وہ ان تمام ریٹرننگ اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسروں کا بوس تھا ، ان کا حاکم تھا۔ سارے آفیسر اس کے ماتحت اور حکم کے غلام تھے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم نے ہارے ہوئے لوگوں کو ستر ستر ہزار ووٹ جعلسازی سے ڈال کر زبردستی جتوایاتو ٹھیک کہتا ہے۔ جن چوروں کی داڑھی میں تنکے تھے انہوں نے سارے رزلٹ دکھائے کہ یہ ستر ہزار کہتے ہیں فرق تو چار یا پانچ ہزار کا ہے۔ تو عرض ہے کہ آپ کے نامزد امیدوار اس شاندار انداز میں ہار رہے تھے کہ ان کی نذر ستر ہزار ووٹ کئے گئے تب کہیں جا کروہ بمشکل دو تین ہزار ووٹوںسے جیت سکے۔آپ کی پولیس گردی اور سیاسی بدمعاشی کے باوجود آپ بری طرح ہارے ۔ راولپنڈی تو کیا لاہور میں بھی یہی ہوا ۔محترم نواز شریف بھی اسی طرح جیتے۔ کہا جا رہا ہے کہ الزام لگانا کوئی بات نہیں۔ الزام لگانے والوں کو ساتھ ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جنامیں سائنس کا طالب علم ہوں اس کی تعریف یہ ہے کہ سائیس وہ علم ہے جو تجربات اور مشاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔کمشنر صاحب کے بیان کی سچائی کا مشاہدہ کرنا ہو تو کسی بازار میں چلے جائیں اور لوگوں سے اس بیان کی سچائی بارے پوچھیں۔ ہر دس میں سے سات آدمی اس سچائی کو قبول کرتے نظر آئیں گے۔ انصاف اور قانون میں یہی فرق ہے کہ قانون کی کتابوں کی آڑ میں آپ سب کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ مگر انصاف خلق خدا کی زبان ہے وہ نقارہ خلق کی طرح آپ کو گلیوں اور بازاروں میں لوگوں سے سننے کو ملے گا۔