آج کل سیاست اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ نوے پچانوے فیصد کالم، ٹی وی شوز بلکہ سوشل میڈیا کے مباحث تک اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ سیاست پر لکھنے اور بات کرنے میں کوئی حرج نہیں، ظاہر ہے ملک میں آنے والی تبدیلیوں، حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور سیاسی جماعتوں کے اوپر نیچے ہونے سے عوام بھی دلچسپی لیتے ہیں اور تجزیہ کاروں کا بھی یہ من پسند موضوع ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ صرف سیاست ہی پر بحث نہ کی جائے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ زندگی کے بے شمار مسائل اور کئی پہلو ہیں۔ پرت در پرت زندگی کی ہر سطح اور تہہ میں کتنا کچھ ایسا ہے جس کو موضوع بنانا چاہیے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ہاں طلاق کی شرح خاصی بڑھ گئی ہے۔ جو دوست وکلا فیملی پریکٹس کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں خلع کیسز کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بہت سی شادیاں اپنے ابتدائی تین چار برسوں کے اندر ہی ختم ہو رہی ہیں۔ اس پر سنجیدہ اور تفصیلی سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں ریسرچ برائے نام ہے اور اگر کہیں کوئی ریسرچ پیپر لکھا بھی جارہا ہے تو اس کا زیادہ تر متن مانگے تانگے کا ہوتا ہے۔علیحدگی کی اس بڑھتی ہوئی شرح پر بھی ریسرچ کرائی جانی چاہیے، جہاں خلع لی جارہی ہے، ان سے اور ان جوڑوں سے جہاں طلاق کے معاملات چل رہے ہیں، انٹرویو کئے جائیں اور پھر کچھ اندازہ ہوپائے گا۔ تین چار وجوہات البتہ فوری نظر آ رہی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو بچیوں کی ایڈجسٹمنٹ کا ہے۔ ہماری نئی نسل یعنی آج کی لڑکیوں میں اپنی پچھلی نسل کی نسبت تحمل، برداشت اور گزارہ کرنے کی صلاحیت، استعداد بہت حد تک کم ہوچکی ہے۔ ایڈجسٹ کرنے کے بجائے وہ معاملہ ختم کرنے پر فوری چلی جاتی ہیں۔ بعد میں انکی اکثریت کو پچھتاتا ہی دیکھا گیا۔ ایک ایشو یہ بھی ہے کہ پچاس سال اور اس سے زیادہ کے لوگ اپنی نئی نسل میں مداخلت اور مسلسل مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھتے ہیں، ساس، سسر یا بڑی نند ، بھابھی دیورانی بننے کے بعد انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ رشتوں میں احترام یک طرفہ طور پر نہیں ملتا، اس کے لئے انہیں بھی کچھ کرنا ہوگا۔ ایک فیکٹر ملازمت پیشہ خواتین کی ایڈجسٹمنٹ کا بھی ہے ، ان میں بہت سی گھر کے لئے قربانی دیتی ہیں اور ملازمت کے ساتھ گھر بھی سنبھالتی ہیں، تاہم بعض جگہوں پر مسائل بھی آ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عدنان نیازی معروف فیس بک رائٹر ہیں، وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، آن لائن کاروبار بھی کرتے ہیں اور مختلف سوشل ایشوز پر بھی قلم اٹھایا کرتے ہیں۔ اپنی ایک سوشل میڈیا تحریر میں انہوں نے ایک اہم ایشو کو نمایاں کیا۔ دراصل بات کسی پر الزام ڈالنے کی نہیں بلکہ مختلف پہلوئوں کو سامنے لانے کی ہے۔ مردوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، خواتین سے بھی، علیحدگی میں کبھی ایک فریق کا حصہ زیادہ ہوتا ہے تو کبھی دونوں ہی قصور وار۔ مختلف زاویوں سے بات دیکنے کا فائدہ یہ ہے کہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر عدنان نیازی لکھتے ہیں: ’’ایک بزرگ کولیگ سے ان کے آفس میں ایک کام کے سلسلے میں ملاقات ہوئی۔ کام مکمل ہونے کے بعد کہنے لگے کہ آپ کی تحاریر پڑھتا ہوں۔ مجھے بھی ایک مشورہ دیں۔ میری ایک قریبی رشتہ دار کی شادی تقریباً چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد اس نے ملاز ت کی خواہش کی تو شوہر نے تھوڑے پس و پیش کے بعد اجازت دے دی۔ گھر میں اس کی نندیں اور ساس موجود تھیں، اس لیے گھر کے کاموں کا بھی کچھ زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔ بچے ہوئے تو تب بھی اس نے کچھ وقت کے لیے چھٹی لی مگر جاب جاری رکھی۔ اس کے شوہر نے اس سے ملازمت والے پیسوں کا کبھی نہیں پوچھا اور اس نے بھی گھر کے خرچ یا کسی بھی دوسری ضرورت کے لیے شوہر کو خود سے بھی نہیں دیے۔اپنے پیسوں سے اس نے بچت کی، پلاٹ وغیرہ لیے۔ ’’اپنے خرچ کے لیے بھی وہ شوہر سے لیتی ہے۔ پچھلے سال اس کی دونوں نندوں کی شادی ہو گئی ہے۔ ساس کی عمر بھی تھوڑی زیادہ ہوئی ہے تو اس کے شوہر نے اسے جاب چھوڑ کر گھر سنبھالنے کا کہا۔ اس نے ملازمت چھوڑنے سے انکار کر دیا اور شوہر سے کہا کہ کام کاج کے لیے کوئی کام والی رکھیں۔ گھر کی صفائی کے لیے الگ ، برتن اور کپڑے استری کرنے کے لیے الگ کام والی رکھ لی گئی۔ اب مہنگائی زیادہ ہوئی تو شوہر نے اس سے کہا کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر کے اخراجات میں حصہ ملائے۔ لیکن وہ کسی بھی طرح سے اس پر راضی نہیں ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ میری کمائی ہے اور اس پر صرف میرا حق ہے۔ شوہر نے یہ کہا کہ کم سے کم اپنا خرچہ ہی خود اٹھا لو اور جو کام والی رکھی ہیں ان کی تنخواہیں بھی آپ دیا کرو کیونکہ گھر سنبھالنا آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کے جاب کی وجہ سے ہی انھیں رکھا ہے۔ وہ اس پر بھی راضی نہیں ہورہی کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ میں اور میرے بچے آپ کی ہی ذمہ داری ہیں ،اس لیے یہ اخراجات آپ کی تنخواہ سے پورے ہونے چاہیے۔ میری تنخواہ پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے بعد شوہر کا کہنا ہے کہ پھر ملازمت چھوڑ دو اور گھر سنبھالو۔ اسی بات پر لڑائی بہت طول پکڑ چکی ہے اور خدانخواستہ یہ گھر ٹوٹ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مشورہ دیں۔ ‘‘ ڈاکٹر عدنان نیازی کہتے ہیں، میں نے انہیں کہا،’’ بزرگو! آپ کو معلوم ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی آج کل کی عورت کو مغربی معاشرے والے سارے حقوق چاہیے ہیں اور اسلامی معاشرے والے بھی۔دوسری طرف فرائض کی بات آئے تو پھر کوئی بھی پورے نہیں کرنے۔ اسی دوغلی پالیسی کی وجہ سے معاشرے میں طلاق و خلع کی شرح بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔بات سادہ سی ہے کہ جس بھی نظام کو اپنانا ہے پورا اپنائیں۔ شادی میں مرد و عورت مل کر ایک خاندان بناتے ہیں۔ جہاں مرد کے کچھ حقوق و فرائض ہیں وہاں عورت کے بھی حقوق کے ساتھ ساتھ کچھ فرائض بھی ہیں۔ ’’اب اس معاملے میں اگر اسلامی لحاظ سے بات کی جائے تو مرد کو قوام بنایا گیاہے اور معاشی طور پر مکمل ذمہ داری مرد پر ہے۔ کما کر لانا اس پر فرض ہے۔ جبکہ گھر کا سارا نظام اور شوہر کی اطاعت عورت کے ذمہ ہے۔ اس نظام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مرد کہے کہ جاب چھوڑ کو گھر کا نظام سنبھالو تو یہ عورت پر لازم ہو جاتا ہے۔ اگر مغربی نظام کو لینا ہے تو اس میں معاشی ذمہ داری مرد و عورت دونوں پر ہے۔ اس لیے مرد بھی جاب کرتا ہے اور عورت بھی۔ فرانس میںاپنے نو سال کے دوران دیکھا ہے کہ وہاں سب چیزوں میں مرد وعورت آدھا آدھا حصہ ملاتے ہیں۔ مکان کا کرایہ، گھر کے لیے کھانے پینے یا کسی بھی سامان کی خریداری وغیرہ سب میں دونوں آدھا آدھا دیتے ہیں۔ اپنی ضرورت کی اشیاء جیسا کہ کپڑے ، سگریٹ وغیرہ اپنے اپنے پیسوں سے لیتے ہیں۔ کہیں باہر ہوٹل میں جائیں یا کسی ریسٹورنٹ میں۔۔۔ بل آدھا آدھا ہوتا ہے۔ اس نظام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جتنا شوہر کما کر لا رہا ہے اتنا ہی بیوی کو بھی کما کر لانا ہے۔ ساس کی ویسے تو ذمہ داری اس عورت پر نہیں ہے لیکن ساس پر پھر اس کے بچے سنبھالنے بھی فرض نہیں ہیں اور گھر کے کام کاج اور کام والیوں کی نگرانی بھی فرض نہیں ہے۔ ’’اب اس کیس میں آپ کی رشتہ دار خاتون دونوں میں سے کسی بھی ایک نظام کو اپنا لے تو یہ لڑائی ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن لڑائی اس وجہ سے ہے کہ ایک نظام سے اس نے مرد کے قوام ہونے والا اپنا حق لے لیا ہے اور دوسرے نظام سے اپنی آزادی والا حق۔ لیکن پہلے نظام سے شوہر کی اطاعت اور گھر سنبھالنے والے فرائض سے منہ موڑ لیا ہے اور دوسرے نظام میں آزادی کے ساتھ معاشی برابری کا فرض چھوڑ دیا ہے۔ اب اگر وہ کسی بھی نظام کے لحاظ سے اپنے حقوق تو لیتی ہے مگر فرائض پورے نہیں کرتی توسنگین مسائل تو پیدا ہوں گے ہی۔‘‘