سید مجتبیٰ سے پرانی یاد اللہ ہے آج کل لندن میں ہوتے ہیں کسی زمانے میں کراچی سے پبلک اخبار شائع ہوتا تھامیں اور سید مجتبیٰ نیوز ڈیسک پر ساتھ کام کرتے تھے پھر سید صاحب لندن سدھار گئے لیکن رابطے میں رہتے ہیں ۔ایک دن بتانے لگے کہ 2015 ء میں کچھ فرصت ملی تو سوچا پی ایچ ڈی کر لی جائے،2500 الفاظ کا پرپوزل تیار کیا اور برطانیہ کی دو یونیورسٹیوں کو بھیج دیا، دوما ہ بعد برمنگھم یونیورسٹی سے اسسٹنٹ پروفیسر کیتھرین براؤن نے رابطہ کیا میںملاقات کے لئے گیا تو انہوں نے موضوع کے انتخاب کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں اور اس موضوع پر فنڈنگ کاملنا بھی مشکل ہے، ہاں اگر پولیٹیکل اسلام پر کام کرنا چاہو تو میں سپروائز بھی کروں گی اور فنڈنگ کا انتظام بھی ، یہ کہہ کر انہوں نے چائے کی پیشکش کی اورالیکڑک کیٹل میں پانی ڈال دیا اگلے 10 منٹ ہم اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔میں نے کیتھرین سے پوچھا کہ مغرب کی پولیٹیکل اسلام میں اتنی دلچسپی کیوں ہے یا باالفاظ دیگر اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟کیتھرین براؤن نے جواب دیا کہ دراصل ہمارے ورلڈ آرڈر کو پولیٹیکل اسلام سے خطرہ ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو ورلڈ آرڈر کہیں نہیں رہے گا ۔ مجتبیٰ نے بتایا کہ اس خاتون پروفیسر نے چائے بنائی اور پھر مجھے ساتھ لے کر دوسرے کمرے میں آگئی جہاں ایک بوڑھا پروفیسر ایک ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ بیٹھا ہو ا باتیں کررہاتھا۔ یہ ادھیڑ عمر شخص گلوسٹر یونیورسٹی میں تھیولوجی کا استاد اور کئی کتابوں کا مصنف رائے جیکسن تھا۔ وہاں بھی پولیٹیکل اسلام پر بات ہونے لگی جود ور جدید میں احیائے اسلام کی تحریکوں کے چار بڑ ے ناموں محمد عبدو،حسن البنا، سید قطب اور مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی پرآکر ٹھہر گئی ۔مجتبیٰ کہنے لگا کیتھرین اور بوڑھے پروفیسر کی معلومات وسیع تھیں بات چیت ہوتی رہی اور اس عرصے میں رائے جیکسن خاموشی سے سنتا رہا ۔کیتھرین کا خیال تھا مصر پولیٹیکل اسلام کی نرسری ہے تاہم کچھ دیر بعد جب رائے جیکسن سے اسکی رائے مانگی گئی تو اس نے کہا کہ یہ درست ہے کے پولیٹیکل اسلام کی زیادہ تر تحریکیں براعظم افریقہ سے نمودار ہوئیں لیکن اسکی باقاعدہ نظریاتی بنیاد برصغیر میں رکھی گئی ۔احیائے اسلام کے لئے ان چاروں کا بہت کام ہے اور یہ چاروں ہی خطرناک ہیں لیکن ان میں "مودودی" سب سے زیادہ خطرناک ہے۔رائے جیکسن کے مطابق عہد حاضر کی جتنی بھی اسلامی تحاریک ہیں ان سب کی نظریاتی آبیاری فلسفہ مودودی ؒسے کی گئی ہے۔ فلسفہ مودودی قومیت، زبان اور فرقہ وارانہ سرحدوں سے ماوراء ہے، پولیٹیکل اسلام کو سمجھنا ہے تو مودودی کو سمجھو مودودی سمجھ آگیا تو پولیٹیکل اسلام بھی سمجھ آجائے گا۔ مجتبیٰ نے بات بڑھائی کہ اس دوران ایک ایشین خاتون کسی کام سے آئیں موضوع ان کی دلچپسی کا تھا ،اختتامی کلمات کے بعد وہ میرے تس ساتھ ہی کمرے سے نکلیں ،لفٹ میں تعارف ہوا تو پتہ چلا وہ ریسرچ فیلو ہیں، انہوں نے حال ہی میں "اسلام میں فیمینزم بمقابلہ رجعت پسندی" کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کے کیا یہ سچ ہے مودودی اور پولیٹیکل اسلام اس وقت تھیولوجی کا ہاٹ ٹاپک ہے تو وہ ہنس پڑی اور بولی میری پوری تھیسس ہی مودودی کے افکار پر ہے۔ اور میری ہی نہیں یورپ کی تمام جامعات میں اسلام پر سب سے زیادہ تحقیق "پولیٹیکل اسلام اور مودودی" پر ہورہی ہے۔ خدا حاظ کہتے ہوئے اس نے استقبالئے کے ساتھ لگے نوٹس بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں تھیولوجی کے ممکنہ تحقیقی موضوعات کی فہرست لگی ہے، دلچسی ہو تو ایک نظر ڈال لو۔مجتبیٰ کہتا ہے میں نے بورڈ پڑھا تو لگ بھگ 50 یا 60 موضوعات درج تھے جن میں 9 پولیٹیکل اسلام سے متعلق تھے اور ہر موضوع کی تحقیق کیلئے ایک ہی حوالہ تھااور وہ تھا’’مودودیؒ"مجتبیٰ کی یہ بات سننے کے بعد میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ مودودی ؒ جس نے اہل کلیسا کی نیندیںاڑا رکھی ہیں اس کی جماعت اس کے وطن میںسسٹم میں خطرہ کیوں نہیں ؟خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بات کا احساس اور اضطراب جماعت اسلامی میں پہلے زیاد ہ ہونے لگاہے۔ نہ ہوتا تو کراچی کا ا نجینئرستر فیصد سے زائد اراکینِ جماعت کے ووٹ لے کر منصورہ میں حلف نہ اٹھاتا۔منصور ہ میں حافظ نعیم الرحمٰن کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اراکین ِجماعت بھی ’’جماعت اسلامی ‘‘ کو اسی مودودی ؒ کی جماعت اسلامی دیکھنا چاہتے ہیں جسے یورپ آج بھی خطرناک سمجھتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے لئے یہ ٹاسک بہت بڑا ہے انہیں’’ منصورہ‘‘ کے ساکت جامد زنگ آلود پرزوں کوبدلنا یا فنکشنل بنانا ہوگا ، منصور ہ سمیت جماعت اسلامی کو ہر شہر میں اقبال ؒ کے مشورے پرکان دھرنا ہوں گے جنہوں نے دہائیوں پہلے کہاتھا’’خرد کو غلامی سے آزا دکر ۔جوانوں کو پیروں کا استاد کر ‘‘ حافظ نعیم کوذمہ داریوں کو کارکردگی سے مشروط کرنا اور رکھنا ہوگا سیاست کو وسط میں رکھ کر دعوت اور تربیت کو میمنہ اور میسرہ کی طرح ساتھ لے کر ہدف کی طرف بڑھناہوگا ،گوادر اور کراچی کی طرح عوامی اشوز اٹھانا ہوں گے حافظ نعیم الرحمن کی اسی پالیسی نے انہیں کراچی کی آواز بنادیا تھاانہوں نے کراچی میں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ ،پانی کی قلت ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر حادثات پر وہ جارحانہ مہم چلائی کہ سندھ حکومت کو لگ پتہ گیا، اسٹیل ملز کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کا اشو ہو یا ایک بڑی رہائشی سوسائٹی سے عوام کی پھنسی ہوئی رقوم نکلوانا ،حافظ صاحب خم ٹھونک کر میدان میں رہے اور کراچی کی جماعت اسلامی کو دو دھاری تلوار بنادیا یہی پالیسی منصورہ کو بھی چاہئے اوریہ کام مشکل نہیں خاصا مشکل ہے برسوں کے زنگ آلود مشینری فعال ہوگی تو پرزوں کی چخ چوں سے شور تومچے گا ،ہاں اس شور کے بعد گاڑی بے آواز دوڑے گی اور رکی نہ رکے گی۔