1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے کئی مقاصد تھے، سب سے بڑا مقصد تختہ دار پر چڑھائے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم ہر ممکن طریقے سے پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ ان انتخابات سے قبل جب مخترمہ بینظیر بھٹو اور مخترمہ نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔ اس لئے انتخابات التوا کا شکار رکھے گئے۔ 1985ء کے انتخابات کا مخترمہ بینظیر بھٹو نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو کہا گیا کہ کی گئی عبادات اور دعائیں کام آ گئیں۔ مخترمہ بینظیر بھٹو شہید کو جلد احساس ہوگیا کہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ وطن عزیز میں جمہوریت کے ننھے منے پودے کو پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان نے مسل دیا تھا، معاشرتی روایات کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ سٹیٹس کو کے کلچر کو فروغ دیا گیا۔ گو ذوالفقار علی بھٹو نے عملی سیاست کا آغاز ملک کے چوتھے گورنر جنرل سکندر مرزا کی کابینہ سے کیا تھا کہ ان کی اہلیہ ناہید بیگم کا تعلق ایران سے تھا اور ان کے بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ جس کے بعد بھٹو مرحوم ایوب خان کی کابینہ میں بھی شامل رہے تھے لیکن ایوب خان کیخلاف بھرپور تحریک چلانے کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ خارجی محاذ پر بھٹو نے بھرپور کامیابیاں سمیٹی تھیں، اسلامی سربراہی کانفرنس اور او آئی سی کا قیام ان کی ایسی کامیابیاں تھیں، جس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے بھٹو کی پذیرائی کو عالم اسلام تک پھیلا دیا تھا جبکہ اندرون ملک غریب کو آواز اور شعور دینے کا سہرا بھی انہی کے سر جاتاہے لہذا ان کی عوامی سطح پر مقبولیت کو سمجھنا زیادہ مشکل کام نہیں، اوپر سے انھیں پھانسی دے دی گئی تھی، سو ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کے پس پردہ سرمائے کے زور پر اس محکوم اور مجبور قوم کے سروں پر ان لوگوں کو حکمران مسلط کرنا مقصود تھا، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، جن کو سیاسی اخلاقیات کا علم نہیں تھا، جن کا مقصد ذاتی مفادات کا تحفظ تھا۔ یہ پراجیکٹ جس کامیاب انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا، شائد نہ پہنچ پاتا اگر محترمہ بینظیر بھٹو ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان نہ کرتیں۔ ایوب خان کے بعد ضیاء الحق دوسرے طالع آزما تھے۔ ضیاء الحق نے معاشرے کی قدروں کو نئے سرے سے تباہ کرنا شروع کیا، مذہب کارڈ کا بھرپور استعمال نظر آیا، کوڑے مارنے سمیت سر عام سزاؤں کا رواج ڈال کر سیاسی کارکنوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ اس دور کے بطن سے آخر کار ن لیگ نے جنم لیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نواز شریف سیاست میں نمایاں نظر آنے لگے، آخر کار بعدازاں ن لیگ قائم کی گئی، زیادہ تر نمایاں چہرے اس جماعت میں ضیا الحق کی سوچ کے حامی تھے۔ 12 اکتوبر 1999ء کے پرویز مشرف کے فوجی کو تک پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے سے دست و گریباں رہیں، 27 دسمبر 2007ء کو روالپنڈی کے لیاقت باغ میں جب مخترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو اس سے قبل ن لیگ، پیپلز پارٹی دیگر سیاسی جماعتیں جو اے آر ڈی کے پلیٹ فورم پر متحد تھیں، چارٹرڈ آف ڈیموکریسی تشکیل دے چکی تھیں۔ 18 فروری 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت چند ماہ چلنے کے بعد پرویز مشرف دور کی ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران معزول کیے گئے ججز کی بحالی کے مطالبے پر ن لیگ اس سے الگ ہوگئی تھی، یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے سے پہلے نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت کا رخ کر چکے تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے مائنس زرداری فارمولے پر عملدرآمد کو یقنی بنانے کیلئے ن لیگ ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی رہی، اسی عرصہ میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی حکومت کیخلاف گورنر راج کا نفاذ بھی سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کو ایک مرتبہ پھر برا بھلا کہنے لگیں، اس دور میں یعنی 2011ء میں لاہور اور کراچی میں سٹریٹ پاور شو کرتے ہوئے پی ٹی آئی ملک میں تیسری سیاسی قوت بن کر ابھری، جو لوگ یہ گلہ کرتے ہیں کہ 2018 ء کے انتخابات سے پہلے سب کو علم تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی وہ یہ بات ناجانے کیسے بھول جاتے ہیں کہ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے سب کو علم تھا کہ ن لیگ کی حکومت آئے گی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بطن سے حکمران اشرافیہ کی ایسی کھیپ تیار ہوئی جو یہ تصور کرتی ہے کہ وہ ہر طرح کے قانون سے مبرا ہیں، وہ ملک کے وسائل کے حقیقی مالک و مختار ہیں اور ان کو اقتدار کی راہ داریوں سے باہر نہیں نکالا جاسکتا، لہذا جیسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو تمام روایت پسند سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت میں پی ڈی ایم اتحاد کے نام پر اکٹھی ہوگئیں۔ بھٹو مرحوم کیخلاف پی این اے قائم ہوا تھا، انھیں لادین قرار دیکر نظام مصطفی کی تحریک بھی چلائی گئی، جس کے مقاصد صرف سیاسی تھے۔ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کا الزام دینے والے کو پی ڈی ایم اتحاد کا سربراہ بنا دیا گیا، ان حالاتِ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کیساتھ مڈل کلاس اور غریب پاکستانی کی اتنی بڑی تعداد میں وابستگی نے 1985ء کے سیاسی ڈھانچے کو زمین بوس کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت کوئی بیانیہ کام نہیں آرہا اور تمام سنئیر اور سنجیدہ تجزیہ نگار اور باخبر حلقے بلا خوف و تردید اظہارِ کر رہے ہیں کہ انتخابات اکتوبر میں وقت پر ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ دراصل انتخابات کا جیسے ہی اعلان کیا گیا؛ سارا ماحول تبدیل ہو جائیگا، بے شک پی ٹی آئی کا راستہ روک دیا جائے لیکن ٹف ٹائم دیا جائیگا اور عوام کا رد عمل سامنے آئیگا، 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قائم کیا گیا سیاسی ڈھانچہ زمین بوس ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کے غبارے سے چند یوم میں ہی ہوا نکل گئی، درحقیقت عوام کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور اب کی بار آسمان سیاست میں رنگ وہ خود بھرنا چاہتے ہیں!!!