مسلم لیگ ن کے ان لوگوں کے سوا جو یا تو ایوان اقتدار سے وابستہ ہیں یا غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے موروثی قیادت پر غیر مشروط ایمان رکھتے ہیں، حکمران اتحاد سے وابستہ بہت سے حلقے بھی موجودہ ملکی صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں حکومت کی کارکردگی مثالی تو کجا کم از کم معیار پر بھی تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی ہے، معیشت اور گڈ گورنس کے اپنے تیئں بنے تجربہ کار کاغذی شیروں نے وطن عزیز کی جو حالت کر دی ہے اسکا ازالہ کرنا ناممکن ہے وہی وزیر خزانہ جو لندن مفروری کے دوران روزانہ راہ چلتے لوگوں سے توہین آمیز ریمارکس سن کر بھیگی بلی بن جاتے تھے، اپنے ملک میں وزیر خزانہ بن کر رپورٹر کے معیشت کے متعلق سوال کرنے پر سیخ پا ہو کر اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر تے وقت ذرہ بھی خوف خدا کا شکار نہیں ہوتے ہیں، ڈار صاحب کا فرض ہے کہ قومی معیشت کے ہر سوال کا جواب دیں، پاکستان کو 2023 ء کے آخر تک 10.35 ارب ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں کی ڈیٹ سروسنگ کی ادائیگی کرنی ہے آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے بغیر پاکستان کو 4 سے 6 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، ان حالات میں اگر کوئی صحافی آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے متعلق سوال کرے تو کیا اس کو زدوکوب کیا جائے ،وہ نہ تو کوئی ذاتی نوعیت کا سوال وجواب کر رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا، ظاہر ہے انسان بااختیار ہو کر جب کمزور انسان پر ظلم کرے تو پھر اللہ پاک تو حساب کتاب کرتا ہے ،وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق سی پیک کے تحت 8020 میگاواٹ کے 13 جنریشن پراجیکٹس کام کر رہے ہیں فیکٹریاں، کارخانے بند ہیں مگر اس کے باوجود 10 سے 12 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے اربوں کے قرضے لیکر بجلی کے پلانٹس لگائے گئے ہیں اور مہنگی بجلی ہونے کے باوجود لوگ جھلسا دینے والی گرمی میں مر رہے ہیں اور بجلی بھی نہیں ہے اور بل بمعہ ٹیکسز بڑھتے جا رہے ہیں مگر ہمارے ارباب اقتدار ہر وقت اپنی سہولتوں،مراعات، تنخواہوں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشنرز اور مفت بجلی،گیس،پٹرول اور ملازمین کی ظفر موج کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں شرمناک مراعات کے بل منظور کر تے ہیں۔ موجود سیاسی نظام میں پاکستان کے حالات کو سنوار نے والی بہتر قیادت آنے کے فی الحال کوئی آثار اور امکانات نہیں ہیں جبکہ عوام کی بے چینی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ،ملک کو جس نوعیت کی قیادت، تبدیلی اور طویل المدت حکمت عملیوں کی ضرورت ہے، پی ڈی ایم کی موجودہ جماعتیں ویسی قیادت فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ایک سال کی حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے پاس موجودہ بحرانوں سے نمٹنے کیلئے نہ تو صلاحیت اور سکت ہے اور نہ ہی وہ قوم کے مفادات کے تحفظ کیلئے مخلص ہیں، اسکی بڑی وجہ کردار کا فقدان ہے اس ضمن میں اور سنگین مرض کی وجہ سے ہمارے نمائندے راتوں رات وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں، تحریک انصاف کے دفتروں میں ملازمت کرنے والے ارب پتی سینٹرز، پراپرٹی ٹائیکون بن کر اپنی جماعت کو چھوڑ نے میں ذرا تامل نہیں کر رہے، مرد افگن سر بکف سردار مقتل میدان کارزار میں کھڑا حیران اور پریشان ہے کہ قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں ،سب کوفی دیکھا جو کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ان فقدان کردار سے عاری لوٹوں کی وجہ سے ہماری سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی اداروں کی کارکردگی کبھی قابلِ رشک نہیں رہی ہے، یہی ضمیر فروش موجودہ ظالمانہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کا باعث بنے ہوئے ہیں،موجود قومی اسمبلی میں صرف ایک بہادر اور نہتی خاتون سائرہ بانو عوام کے ایشوز پر حکومت کی نااہلیوں کو بے نقاب کر رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض جو انگوٹھا چھاپ اور سیاسی وفاداری تبدیل کر کے اسمبلی میں محض مراعات کے لیے بیٹھے ہیں، کبھی ان سمیت باقی تحریک انصاف کے ٹکٹوں پر جیتنے والوں نے کبھی کسی مسئلے پر عوام کے مسائل پر بات کی ہو ،تو حرام ہے۔ کسی بھی ملک کی مقننہ اسکے سماجی اور اقتصادی ڈھا نچے کی عکاس ہوتی ہے اور 75 سال گزرنے کے باوجود ہمارے یہ جمہوری ادارے ایک بہتر تبدیلی جو عام آدمی کے مفاد میں ہو، لانے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پارلیمنٹ کے اراکین کو قومی مفاد سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر وہ اپنا دین، مزہب، نظریہ اور عزت نفس قربان کرنے میں لمحہ نہیں لگاتے ہیں، یہی وجہ ہے ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ کے اراکین کے یہ ادارے قومی زندگی میں کوئی جوہری تبدیلی لانے کی صلاحیت سے محروم ہیں، ظاہر ہے کہ ملک میں تمام اداروں میں کم و بیش صاحب کردار لوگ موجود ہونگے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور وہ فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا کر نے سے قاصر رہتے ہیں ہماری موجودہ حکومت کے بزرجمہر براؤن صاحب بن کر پاکستان حکومت کرنے آتے ہیں، حکومت ختم ہونے پر اسی طرح واپس لندن، دوبئی اور سپین چلے جاتے ہیں، جیسے کوئی مداری تماشا دکھاتا اور پھر رخصت ہو جاتا ہے ہماری غالب اکثریت کی سیاسی قیادت کا کردار نا قابل رشک ہے،ہمارے ماضی اور حال کے حکمرانوں نے کبھی کسی عظمت کردار کا مظاہرہ نہیں کیا، ہم کسی ارفع سوچ وفکر کی حامل قیادت کے بحران سے تو دوچار ہیں لیکن اگر معمولی فہم فراست رکھنے والی قیادت صاحب کردار ہوتی تو ملک کے 25 کڑور عوام اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں بھوک، ننگ اور افلاس کے شکار لوگوں کی تعداد 10 کڑور سے بڑھ چکی ہے۔ آج ہم ملک کی بے حس اور بصیرت سے عاری قیادت کے رویوں کو دیکھتے ہیں تو کہنا پڑھتا ہے اے دریغا نیست ممدوح سزاوار مدح اے دریغا نیست معشو قے سزاوار غزل ترجمہ کوئی ممدوح ایسا نہیں رہا جو مدح کے لا ئق ہو اور کوئی معشوق ایسا نہیں کہ اس پر غزل کہی جا ئے