ڈیرہ بگٹی کے دور دراز علاقے کے مضبوط حفاظتی حصار میں واقع وسیع و عریض رہائش گاہ کے ملاقاتی کمرے کی فرشی نشست کے دوران نواب اکبر بگٹی سے طویل انٹرویو کے وہ لمحات مجھے آج بھی یاد ہیں جب بگتی قبیلے کے نواب ہمارے دو ٹوک ‘تلخ و شیریں سوالات کے انتہائی غیر جذباتی اور سبک انداز میں جواب دے رہے تھے۔پاکستان سے اپنی محبت‘ نشیب و فراز سے بھر پور سیاسی کیریئر بلوچستان کی احساس محرومی اور پاکستان کے سیاسی حالات کے اتار چڑھائو اور چلنے والی تحریکوں ان کے متعلق مختلف حکمرانوں اور حکومتوں کے ردعمل اور اقدامات پر اپنے تفصیلی نقطہ نگاہ سے آگاہ کر رہے تھے۔ ان کی پوری گفتگو میں مجھے کہیں بھی کوئی شدت پسندانہ یا باغیانہ چنگاری کی کوئی حدت محسوس نہیں ہوئی۔لیکن آج تک میرے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ پاکستان کے لئے ووٹ دینے والا‘پھر اہم عہدوں پر متمکن رہنے والا اپنے قبیلے کا یہ بااثر سردار کوہلو کے غار میں کیوں مارا گیا؟ بلوچستان کی سیاست میں طویل عرصے تک ایک متحرک کردار ادا کرنے والے سردار عطا اللہ مینگل کے ساتھ متعدد ملاقاتیں رہیں سوجھ بوجھ اور عقل و شعور کی باتیں کرنے والے بلوچی سردار کے لہجے میں شکوے شکایات کا ایک انبار ہوتا تھا۔بلوچستان کی محرومیوں کے حوالے سے وہ ہمیشہ ایک جچا تلا تھیسس پیش کرتے تھے جیسے وہ اپنی پہلی کہی ہوئی بات کو دہرا رہے ہوں۔ان کی سیاسی زندگی میں بے شمار اتار چڑھائو آئے وہ اقتدار کے ایوانوں کے مکین بھی رہے۔ قومی سیاست کے گواہ بھی اور اپنے دو ٹوک موقف پر ڈٹ جانے والے ایک موثر کردار بھی۔لیکن یہاں میرے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ان کے موقف میں پوشیدہ بعض حقائق پر توجہ نہیں دی گئی۔جو وہ اپنی زندگی میں بار بار دہراتے رہے۔ غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدان پاکستان سے محبت جن کے وجود میں سمائی ہوئی تھی ۔وہ کبھی بھی اپنی بات توڑ مروڑ کر اور مبہم انداز میں بیان نہیں کرتے تھے۔ہر طبقہ میں انتہائی احترام اور توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ قومی مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ویژنری انسان تھے انکساری اور رواداری کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا ۔جو بات درست سمجھتے تھے کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ اور مصالحت کا شکار نہ ہوئے۔نوابزادہ نصراللہ خان کے بقول وہ ہماری قومی سیاست کا اثاثہ تھے۔لیکن ہم نے ان کے موقف کو وہ پذیرائی نہیں بخشی جس کے وہ حقدار تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کو یاد کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی محرومیوں کی بابت دو ٹوک انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔نگران ہونے کے باوجود وہ ایک منتخب وزیر اعظم کی طرح با اختیار ہیں۔یہ بھی کوئی انہونی بات نہیں کہ ان کے نام کا قرعہ وہیں سے آیا جن کی سند کو کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی ۔کاکڑ صاحب کی آمد سے یہ احساس تو ضرور ہوا کہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔خواہ نگران ہی سہی۔اس توقع کے ساتھ کہ کاکڑ صاحب ایسا کون سا کام نہیں کر سکیں گے جو عمران خان اور شہباز شریف نے کیا ہو۔ شہباز شریف نے انہیں جس طرح گلے لگا کر اپنی کرسی پیش کی اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس فیصلے میں بادل نخواستہ سہی نواز شریف کی رضا مندی شامل تھی۔ اس لئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس تعیناتی پر اگر ن لیگ خوش ہے تو پی ٹی آئی بھی غیر مطمئن نہیں۔پیپلز پارٹی اور جے یو آئی خاموش ہیں اور اے این پی راضی جبکہ پی این پی ٹھہرے پانی میںپتھر مار رہی ہے۔اختر مینگل سرپرائز ہوئے اور انہوں نے جنجھلاہٹ اور غصے میں نواز شریف کو اپنے ردعمل سے بھر پور خط لکھ ڈالا۔انوار الحق کاکڑ کو دیکھ کر کوئٹہ جیسے چھوٹے کی بے شمار خوبیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ایک شہر میں اتنے فکری‘ سیاسی سماجی اور لسانی رنگ ہیں۔یہ شہر پورے ملک کی بات سکون سے سنتا ہے اور مدلل انداز میں بات کرنے کا بھرپور سلیقہ رکھتا ہے۔اس لئے بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ اپنی بات کرنے اور سننے کی جگہ ہے۔نگران وزیر اعظم در حقیقت اپنی شخصیت میں کئی رنگ سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ جب وزیر اعظم نہیں تھے تب بھی ان کی بات پہاڑوں پر چڑھے نوجوانوں کی بیٹھکوں تک توجہ سے سنی اور سمجھی جاتی تھی۔اس سے کوئی ان سے لاکھ اختلاف کرے۔لیکن وہ اپنی تقریروں اور گفتگو میں بلوچ قوم پرستوں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جا بجا فوج کے ساتھ بلوچستان کا موقف بھی رکھتے دیکھا ہے۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کے ارادے کیا ہیں کچھ ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ آشکار ہوتے جائیں گے۔جوں جوں کہانی کی گرہیں کھلتی جائیں گی۔آزمودہ سیاستکاروں کو احساس ہوتا جائے گا کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔کچھ بھی کہا جائے لیکن لگتا ہے کہ ایک مضطرب فضا میں حالات اور معاملات کچھ تھم سے گئے ہیں کیا سیاسی سمندر کی خاموشی کسی بڑے سونامی کا پتہ تو نہیں دے رہی ۔عمران خان عتاب میں ہیں۔ ابھی یہ بحث لاحاصل ہے کہ حالات پہلے سے زیادہ گھمبیر ہیں یا بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ایک ایسے معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس سے ملک خود بخود اس غیر یقینی سے نکل جائے گا ۔لگتا یوں ہے کہ عمران کی سمجھ میںنہیں آ رہا کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔کیونکہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہاں رہنے والوں کی 70فیصد اکثریت سمجھتی ہے کہ ان کا مقدر رات کی سیاہی کی طرح تاریک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی آئے کوئی بھی جائے کیسی سماجی تبدیلی اور کہاں کا معاشی اور سماجی انصاف ان کا مقدر زندگی بھر تلخیوں کے کچوکے سہنا اور یونہی زندہ درگور ہونا ہے۔سب اپنی اپنی گاڑی چلا رہے ہیں ،کوئی بریک لگانے پر تیار نہیں۔عمران خاں اٹک جیل کی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بیٹھے یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے غیر دانشمندانہ فیصلوں نے انہیں کس منجدھار میں لا پھنسایا ہے۔ انہیں کوئی نہ کوئی کھڑکی کھلی رکھنی چاہیے تھی۔وہ صرف اپنے اس بیانئے پر اڑے رہے کہ کرپشن سے آلودہ (2) دو خاندانوں سے نجات عوام کا خواب ہے اور طرہ یہ کہ وہ طاقتوں سے بھی الجھ پڑے جن کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ ایوان اقتدار تک پہنچے تھے جہاں سفید جھنڈا لہرانے کی ضرورت تھی وہاں وہ پھنکارنے لگے۔نتیجہ یہی نکلنا تھا اپنی ضد اور انا کے چکر وہ اس عذاب میں پھنستے چلے گئے۔میں ہرگز نہیں کہتا کہ عمران کا سیاسی سفر اختتام کی طرف گامزن ہے۔لیکن یہ ضرور ہے وہ اپنی حماقتوں سے جیتا ہوا میچ ہارتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس تھیٹر میں ایک طرف سیاسی پگڈنڈیوں پر چلنے والے کردار ہیں دوسری طرف ہماری پوری سیاسی تاریخ کا یہ سبق کہ کوئی خود کتنا مقبول اور طاقتور سمجھے۔اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شیر کو بھی سرکس میں کام کرنا پڑتا ہے۔