عمران خان کا طرز سیاست بالآخر تحریک انصاف جیسی مقبول سیاسی جماعت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں ٹوٹنے بکھرنے اور بننے کے مراحل سے گزرتی رہتی ہیں .سیاست میں تمام سیاسی جماعتوں پر ایسا وقت آیا جب ان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا۔اور ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مصداق سیاسی جماعتیں اپنا سروائیول برقرار رکھتی رہی ہیں۔ یہ کہنا کہ تحریک انصاف کا خاتمہ ہوگیا تو درست نہیں ہے کیونکہ سیاسی عمل میں سیاسی جماعتیں اس سے گزرتی رہی ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس وقت جو زوال تحریک انصاف پر آیا ہے اس کی وجوہات بہت افسوسناک ہیں جو اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت کے ہاں نہیں ملتیں۔تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے اپنے غیر ذمہ دارانہ شدت پسند سیاسی نظریات کی وجہ سے ریاست پاکستان کی کچھ ایسی تہذیبی و اخلاقی قدروں کو نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ سیاسی بیانات کی مذمت سے ممکن نہیں ہے۔ سیاسی احتجاج میں ریاست پاکستان کی قومی اور تہذیبی سرخ لائن کو عبور کیا گیا اور پوری دنیا میں اپنا ہی ایسا تماشا بنایاگیا کہ کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ نو مئی پی ٹی آئی کے شدت پسندانہ طرز سیاست کا کلائمکس تھا۔جیسے سرد ہواؤں میں درختوں کے زرد پتے شجر سے جدا ہوتے ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں کارکنوں کے دماغوں میں اتنی شدت پسندی ڈالی گئی سیاسی احتجاج کیوں اس قدر پر پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کرگیا؟اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا تھے؟ یہ کالم یوم تکریم شہدا ء کے دن لکھا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی بدقسمتی ہے کہ ہمیں شہیدوں کی تکریم کے حوالے سے بھی دن منانے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ شہداء کا مرتبہ اور تکریم ہم نے نہیں ہمارے دین نے طے کی ہے اور بطور مسلمان ہم جانتے ہیں کہ شہید کا رتبہ کیا ہے۔میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ شہداء کی تصویروں اور ان سے منسوب یادگاروں کو تہس نہس کرکے کونسے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سانحہ محض ہجوم کے غم و غصے کی وجہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا اس کی مکمل تحقیقات کرنی چاہیے۔ آغاز میں یہ ابہام پیدا کیا گیا تھا کہ کہ شرپسند پی ٹی آئی کے ورکر نہیں ہیں بلکہ کہیں اور سے بھیجے گئے لوگ تھے جو پی ٹی آئی کے امیج کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔اب تحقیقات نے یہ ابہام بھی دور کر دیا ہے۔ مسلسل آڈیو لیکس آرہی ہیں جس میں پی ٹی آئی کی مختلف درجوں کی قیادت اپنے ورکرز کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لئے اکسا رہی ہے اس میں پی ٹی آئی کے بڑے نامور رہنماؤں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ صرف پی ٹی آئی پر مشکل وقت نہیں ہے بلکہ پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ جن لوگوں کو غلط راستے کی طرف موڑا گیا جن کے ذہنوں میں شدت پسندی ڈالی گئی وہ پاکستانی تھے اور پاکستان کے شہری تھے۔ لیڈر شپ کے احکامات کو فالو کرتے ہوئے ان لوگوں نے اپنے ہی گھر کو آگ لگائی۔اور ریاست کی تہذیبی اور سماجی سرخ لائن کو عبور کیا۔ اس جماعت کے بے شمار ایسے شدت اس وقت جیلوں میں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پارٹی کی اعلی قیادت سے لے کر سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔شیریں مزاری اور فواد چوہدری جیسے قریبی لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔اسد عمر نے کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔اس کے علاوہ درجن بھر کے قریب ایم پی اے اور اپم این ایز نے بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔وہ اپنی پریس کانفرنس میں پراعتماد نظر آنے کی کافی اچھی اداکاری کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے سیاسی رہنما اور اسد عمر کی طرح سیاسی عہدوں سے استعفے دینے والے پی ٹی آئی کے رہنما کیا اس طرح منظر نامے سے ہٹ کر سانحہ 9مئی سے بری الذمہ ہو جائیں گے نہیں ہرگز نہیں، وہ یقینا جواب دہ رہیں گے ،تاریخ ان پر ان کی غلطیوں کا بوجھ ڈالے گی۔ انہیں اپنی باقی زندگی اسی دار ندامت کے ساتھ گزارنا ہوگی۔میرے خیال میں اس وقت سب سے بڑی مشکل خود پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی ہے ۔ حقیقی آزادی کے نام پر شدت پسندانہ جذبات اپنے فالوورز کے دماغوں میں کسی اور نے نہیں ،خود انہوںنے ڈالے۔ آپ ان کی پرانی تقریریں نکال لیں رجیم چینج کے بعد ان کا طرز سیاست دیکھ لیں ان کے بیانات میں بہت غم و غصہ تھا۔اس عرصے کے دوران انھوں نے سیاست کو جہاد کا نام دیا اور کہا کہ حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا سیاست نہیں بلکہ جہاد ہے یہ ساری باتیں ان کے شدت پسندانہ نظریات کی ہی غماز ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان اپنی سیاسی ٹیوشن کس سے لے رہے ہیں جس نے ان کے ذہن میں اس قدر شدت پسندی ڈال دی کہ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو اپنے ہی ہاتھوں زوال سے دوچار کر دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان تنہائی میں بیٹھ کر اپنی مقبول ترین جماعت کے اس زوال پر آج کل کیا سوچتے ہوں گے، بظاہر وہ جارحانہ بیانات دے رہے ہیں۔اتنا کچھ کھو دینے کے بعد بھی وہ سیاست کو ایک کرکٹر کی طرح دیکھ رہے ہیںعمران خان ایکشن اور ری یکشن کے آدمی ہیں ،میرا خیال میں انہیں اپنی سوچ میں reflection کو جگہ دینی چاہیے۔آج کل عمران خان بالکل تنہا ہیں انہیں ان تنہائی کے لمحات میں یہ سوچنا چاہئے وہ اس مقام تک کیسے پہنچے ہیں۔ کاش کہ تحریک انصاف کی خزاں رسیدگی کے ان مشکل دنوں میں خان صاحب چند دن کے لیے سیاسی بیانات سے دور ہو کر تنہا بیٹھیں اور سوچیں کہ دن رات اپنے بیانات اور تقریروں میں وہ نفرت اور منفی سوچ کی ترویج کرکے کن قوتوں کا بھلا کرتے رہے ہیں ؟ اسی نفرت اور انا پر مبنی طرز سیاست نے انہیں مقبولیت کے ہجوم سے اٹھا کر سیاسی کنج تنہائی میں لا پھینکا ہے۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیر عذاب مجھ پہ نہیں حرف مدعا کے سوا۔۔!!