بلآخر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے‘ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کیخلاف سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے کرتے مہنگائی کی ماری عوام سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ وطن عزیز کے گوشے گوشے سے مہنگی بجلی کیخلاف احتجاج سامنے آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بجلی کے نرخوں پر احتجاج کا انداز کچھ یوں ہے کہ عوام کی اکثریت کا کہنا ہے’ اب عوامی احتجاج ہوگا‘ بغیر کسی سیاسی جماعت کے احتجاج ہوگا اور ہم بجلی کے ان ظالمانہ بلوں کو ادا نہیں کریںگے۔ کے بلوں کیخلاف تا وقت سامنے آنے والے احتجاج کے دوران متعدد مقامات پر بجلی کے بل نذر آتش کئے جا چکے ہیں جبکہ شہریوں کا ردعمل سامنے آ رہا ہے کہ وہ بجلی کے بل کسی صورت ادا نہیں کریںگے اور اگر ان کے بجلی کے کنکشن منقطع کرنے کی کوشش کی تو پھر حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے احتجاج اور مختلف مقامات پر عوام کے احتجاج کے دوران اس بات کو تنبیہ کے طور پر اجاگر کیا جا رہا ہے کہ گلی محلوں اور مارکیٹوں میں اگر احتجاج کے بعد بجلی کے بل نذر آتش کئے گئے ہیں اور متفقہ طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ ان بلوں کی بطور احتجاج ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ بجلی تقسیم کارکمپنیوں کا عملہ اگر بجلی کے کنکشن منقطع کرنے آتا ہے تو پھر پورے کا پورا علاقہ متحد ہوکر انہیں بزور طاقت روکے گا‘ اگر کوئی مارکیٹ ہے‘ وہاں سارے دوکاندار متحد ہوںگے‘ اس قسم کا ایک احتجاج اور اتحاد کراچی میں کے الیکٹرک کے عملے کیخلاف سامنے آچکا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہوگا کہ ہمارے حکمران عوام کے مسائل‘ محرومی اور درد کو سمجھتے ہیں یا پھر اس طرح کے احتجاج کو روکنے کیلئے قانون کو حرکت میں لایا جائے گا‘ اس حقیقت کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مادر وطن میں بجلی کی چوری کے باعث بجلی کے لائن لاسز کی صورت میں عام صارفین پر سارا نزلہ گرایا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط اور حکومتی آمدن کو مد نظر رکھ کے اضافی ٹیرف کا سارا بوجھ بھی عام پاکستانی کے کاندھوں پر لادا جارہا ہے‘ جس کے باعث اب عوام مزید اس بوجھ کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ عوام کے کاندھے نہ صرف تھک چکے ہیں بلکہ جواب دے چکے ہیں‘ لہذا احتجاج کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ حکومت اور انتظامیہ بجلی کے بلوں پر احتجاج سے سبق حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اگر کراچی کے واقعہ پر قانونی راستہ اختیار کرنے کو مسئلے کا حل تصور کرتی ہیں تو اس پر ماتم ہی جاسکتا ہے‘ بجلی چوری اور سرکاری اہلکاروں سے لیکر افسران اور اشرافیہ تک بجلیکی مفت رسائی کا بوجھ آخر عوام کیوں برداشت کریں۔ اس وقت وطن عزیز میں جس قدر مہنگائی ہوچکی ہے‘ عام آدمی کیلئے زندگی گزارنا دو بھر ہے‘ اوپر سے بجلی کے ظالمانہ بل ۔ نگران حکومت نے پٹرولیم مصنو عات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یکے بعد دیگرے بجلی کے نرخوں میں دو مرتبہ اضافہ کردیا ہے‘ اندازہ کیجئے کہ غریب اور متوسط طبقہ جسے اس وقت دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ وہ کس طرح بجلی کے ان بلوں کی ادائیگی کرسکتا ہے‘ اس وقت ویسے تو نگران حکومت ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی چوروں کیخلاف کتنی کارروائی ہوتی ہے؟ اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بجلی چوروں کوحکومت لگام نہ ڈالے اور خمیازہ عام صارفین بھگتیں۔ سابق پی ڈی ایم سرکار کے آخری ایام میں قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا ایک اجلاس ہواتھا جس میں انکشاف کیا گیا کہ ایک سال میں پانچ سو ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ ان بجلی چوروں کیخلاف کارراوئی نہ ہونے کے برابر تھی‘ اس اجلاس میں ہی اعتراف سامنے آیا کہ اس پانچ سو ارب روپے کا سارا بوجھ عام صارفین کے کاندھوں پر ڈالاجائے گا ۔ حکومت نے اپنے سولہ ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ کیا‘ اس سے پندرہ سو ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی عام صارفین پر پڑا۔ اس حکومت کے جانے کے بعد بجلی مزید مہنگی کی جاچکی ہے‘ اس لئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کا صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہوا ہے۔عوامی احتجاج میں کوئی سیاسی جماعت شامل نہیں‘ سابق پی ڈی ایم سرکار جس طرح ہر غلطی اور بگاڑ کا ذمہ داری پی ٹی آئی اور جیل میں قید اس کے سربراہ پر عائد کردیتی تھی‘ اب نہ پی ڈی ایم سرکار ہے نہ پی ٹی آئی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے تو پھر عوام کے ردعمل کو خالصتاً عوام کا مطالبہ تصور کیا جائے مگر افسوس عوام کے دکھ اور درد کا مداوا کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں‘ موجودہ حالات و واقعات میں عوام کا غم و غصہ حالات کو اتنا سنگین کرسکتا ہے کہ مختلف زاویوں سے اس کے ماہرانہ تجزیے کو گمان میں لانے سے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ لہذا موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی غیض و غضب کو کسی کے بھی خلاف سیاسی حکمت عملی نہ جانا جائے بلکہ فوری طور پر 1973ء کے آئین کے مطابق عام انتخابات کو ہر حال میں 90 روز کے اندر یقینی بنایا جائے‘ متعدد وکلاء نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ مردم شماری کے اعتبار سے انتخابات کی تاخیر کی آئین اجازت نہیں دیتا‘ الیکشن کمیشن 2017ء کے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو جواز بنا کر کبھی صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ پر اعتراضات اٹھائے اور کبھی صدر مملکت سے ملاقات سے معذرت کے مختلف عذر نہ پیش کرے بلکہ آئین کی پاسداری کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے‘ انتخابات واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے ملک کو درپیش بے یقینی کی صورتحال اور انارکی جیسے خدشات سے نکالا جا سکتا ہے۔ عوام کے ووٹ کی طاقت سے حکومت آئے اور عوام کو جواب دے بنے‘ وگرنہ جس طرح عوام بجلی کے بلوں کے خلاف بغیر کسی سیاسی جماعت کے سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو پھر یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہوگا کہ عوام کس کیخلاف احتجاج کررہے ہیں۔