ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف ہونے والے مظالم کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اَلبتہ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جیسی پرتشدد نظریات رکھنے والی دائیں بازو کی جماعت نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی ہے بھارت میں سیاسی مخالفین سمیت غیرہندوؤں بالخصوص مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی حقوق کی پامال آئے روز کا معمول ہے۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکار کی اقلیت کش پالیسیوں کا تازہ شکارہزاروں میل دور کینیڈا میں قیام پذیر سکھ کمیونٹی ہوئی ہے جہاں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل ہوا ہ جسے بھارت نے مطلوب دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا۔انہیں اس سال 18 جون کو کینیڈا کے شہر وینکوور کے ایک مضافاتی علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وینکوور کینیڈا میں سکھوں کی سب سے بڑی آبادی کا مسکن ہے۔ سکھ رہنمانجر ایک آزاد سکھ ریاست کے قیام کی حمایت کرتے تھے جبکہ بھارت ان پر بھارت میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ کینیڈا کی حکومت سکھ رہنما کا قتل بھارتی ایجنٹوں سے جوڑتی ہے۔ اَلبتہ نئی دہلی نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اِس الزام کی تردید کی ہے۔ انڈیا کا ہمسایہ اور براہِ راست متاثر ہونے کی بناء پر پاکستان ایک عرصے سے عالمی برادری کی توجہ ہندوستان کے اِس طرزِعمل کی طرف مبذول کراتا رہا ہے کہ ہندوستان ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے اندرونی معاملات میں نہ صرف دخل اندازی کرتا ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی براہِ راست ملوث ہے۔ اِس ضمن میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان میں گرفتاری پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی براہ راست مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجرکے قتل نے ہندوستان کے دوغلے پن کو مزید آشکار کردیا ہے اور ہندوتوا کی حالیہ لہر نے مغربی دارالحکومتوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اَب کینیڈا نے بھارت پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور یہ ثبوت فائیو آئی(Five Eye) ممالک میں سے ایک ملک نے فراہم کیے ہیں۔ فائیو آئی آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اِتحاد پر مشتمل ایک فورم ہے جو آپس میں تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو دنیا کی جاسوسی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں خطاب کرتے ہوئے، کینیڈا کے وزیرِاعظم ٹروڈو نے کہا: "گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، کینیڈا کی سیکورٹی ایجنسیاں ہندوستان کی حکومت کے ایجنٹوں اور ایک کینیڈین شہری، ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے درمیان ممکنہ تعلق کے معتبر الزامات کی سرگرمی سے پیروی کر رہی ہیں"۔ اِسی طرح کینیڈا کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ حکومت نے ایک سفارت کار کو ملک سے نکال دیا ہے جو ملک میں "ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ" تھا۔ امریکی صدر بائیڈن کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر این سلیوان کے بعد، امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ بلنکن نے ہندوستان کی مودی حکومت سے کینیڈا کی تحقیقات میں تعاون کرنے کو کہا ہے اور اس عزم کا اِظہار کیا ہے کہ امریکہ کسی بھی 'بین الاقوامی جبر' کے خلاف ہے۔ اَمریکہ نے واضح کیا ہے کہ اِسے توقع ہے کہ ہندوستانی حکومت کینیڈا کے ساتھ ایک کینیڈین شہری کے قتل میں نئی دہلی کے ایجنٹوں کے ممکنہ ملوث ہونے کی تحقیقات کی کوششوں پر کام کرے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب مغربی ممالک اور کینیڈا کے دوست ممالک کینیڈا کی طرف سے ہندوستان پر لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں کس حد تک کینیڈا کا ساتھ دیتے ہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارتی جنتا پارٹی کے اِقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بھارت میں مسلم دشمنی کا رجحان تیزی سے بڑھنا شروع ہوگیا تھا اور یہ سب کچھ اِیک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے جسے مودی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بھارت کی بی جے پی حکومت کے خلاف ؎؎نومبر 2022 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) نے یونیورسل پیریڈک ریویو (UPR) کے دوران ہندوستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تحفظات کا اِظہار کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ مذہبی امتیاز اور جنسی تشدد پر سخت موقف اپنائے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) میں یونیورسل پیریڈک ریویو کے تحت رکن ممالک کا ہر چار سال بعد اجلاس منعقد ہوتا ہے جو رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو جانچنے کا طریقہ کار ہے۔ انسانی حقوق کونسل اقوام متحدہ کے تحت ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ذمہ دار ہے۔ UPRکا جائزہ لینے کا طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006 میں قائم کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ہر چار سال بعد اس جائزے سے گزرتے ہیں۔ رکن ممالک کو ایک دوسرے کو سفارشات دینے اور پچھلے اجلاسوں سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ حتیٰ کہ نومبر 2022 میں جنیوا میں منعقد ہونے والے چوتھے UPR جائزے کے دوران، رکن ممالک نے ہندوستان سے "انسداد دہشت گردی" کے قوانین کے وسیع اطلاق کو کم کرنے کا بھی کہا تھا۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی پشت پناہی کے سلسلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بے اِعتنائی کی تازہ مثال بھارت کی ریاست منی پور میں ہونیوالے دلخراش واقعات کی ہے جہاں حکمران جماعت بی جے پی نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ وہاں کے اکثریتی آبادی کے حامل میتئی قبیلے کی طرف سے کوکی قبیلے کی عورتوں کے ساتھ کی جانیوالی دل دہلا دینے والی زیادتیوں کے پیچھے منی پور ریاست کی حکمران جماعت بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ اِس سے قبل کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے جنوری 2022 میں سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کا فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں سے اِمتیازی سلوک کی مثال ہے جبکہ کرناٹک کی ہائی کورٹ نے بھی حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا۔ بھارت میںجہاں مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کا 14 فیصد ہیں، حجاب کو تاریخی طور پر عوامی سطح پر نہ تو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی محدود کیا گیا ہے۔ خواتین کا سر پر اسکارف پہننا پورے ملک میں عام ہے۔ بھارت کے قومی چارٹر میں مذہبی آزادی کو سیکولر ریاست کی بنیاد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ قیادت اِنتہا پسند ہندو قوم پرستی کے خیالات کی حامل اور پرچارک ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی نسل کش پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مثال کے طور پر، حجاب پہننا یا داڑھی رکھنا ناشائستہ قرار دیا جا رہا ہے اور بنیاد پرست ہندو، مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت انٹرنیٹ کی بندش میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ بھارت کی پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں مداخلت اور دہشت گرد عناصر کی حمایت کی پالیسیوں کا نوٹس لے تاکہ دنیا میں امن کے قیام کے اقوامِ متحدہ کے وعدہ کی تکمیل ہوسکے جبکہ بھارت میں بسنے والے دلت اور آدیواسی جیسے پسماندہ گروہوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا بھارتی حکومت کے ناروا سلوک سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔