آٹھ برس کی عمر میں جب زندگی ابھی بچپنے کی دہلیز پر تھی ان کی آنکھوں کی بینائی جانے لگی۔نظر اگرچہ پہلے بھی کافی کمزور تھی مگر آٹھ برس کی عمر میں منظر کے رنگ اور روشنی پر ایک سرمئی اندھیرا غالب آگیا۔وہ اپنے والدین کے بڑے بیٹے تھے۔آس پڑوس کے لوگوں اور رشتہ داروں نے والدین کو کہنا شروع کر دیا کہ آپ کا بیٹا تو نابینا ہو گیا ہے اب یہ بھیک مانگ کر زندگی گزارے گا ۔ یہ سانحہ کیا کم تھا کہ کہ کچھ عرصے کے بعد ان کے دوسرے اور تیسرے بھائی کی بینائی بھی اسی طرح چلی گئی۔پھر ایک بہن بھی بینائی سے محروم ہو گئی۔چار بچوں کی نظر چلے جانا،بچوں کے والدین کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا۔اسکول ٹیچر والد، پے درپے بینائی جانے کے اس حادثے پر اتنے شکستہ دل ہوئے کہ انہوں نے اپنی زندگی ختم کرنے کا ارادہ کر لیا۔ایک بچے کی بینائی بھی نہ رہے تو والدین کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا لیکن یہاں تو چار بچے اپنی بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔چار نابینا بہن بھائیوں میں بڑے محمد اقبال جو اس وقت دس بارہ برس کے ہوں گے۔آغاز ہی سے حساس دل روح تھے۔اس کم عمری میں بھی انہیں اپنے والد کے اس دلخراش ارادے کا جانے کیسے اندازہ ہوگیا ۔ ایک رات انہوں نے والد کو اس کیفیت میں دیکھا تو اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا والد صاحب خودکشی آپ نہیں کر رہے، آپ کی خود کشی اصل میں ہم چاروں کی خود کشی ہوگی ،ہماری زندگی ختم ہو جائے گی۔خدا کے لیے آپ زندگی ختم نہ کریں ہم ہمت سے زندگی کو گزاریں گے۔ دس بارہ برس کے بچے کی دل سے نکلی ہوئی بات نے اپنی زندگی ختم کرنے کاارادہ کرنے والے باپ پر یوں اثر کیا کہ پھر اس نے اپنی پوری زندگی اپنے نابینا بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے وقف کردی۔ وہ دس بارہ سال کا بچہ جس نے اپنے والد کو خودکشی سے بچایا اور اپنی زندگی کو بدلنے کا عزم کیا وہ دنیا کے لیے بھی ایک امید اور روشنی کی مثال بن گیا۔یہی بچہ پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے نام سے انگریزی ادب کا استاد، شاعر اور سماجی رہنما کے طور پر معروف ہوا اور عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ کہانی ہے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی جو آٹھ سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے۔صاحب کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں تو ان کی زندگی کا ہر لمحہ جہد مسلسل کی ایک کہانی نظر آتا ہے اتنا کام تو شاید آنکھوں والے بھی نہیں کر سکتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ عزم اور حوصلے کی کتنی بڑی چٹان ہیں۔انہوں نے بہت سے اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔ڈاکٹر محمد اقبال پاکستان میں انگریزی ادب میں پہلے گولڈ میڈلسٹ ہیں۔وہ پہلے نابینا ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں۔خود نابینا ہو کر انہوں نے نابینا بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بیڑا بھی اٹھایا۔پاکستان ایجوکیشن فار بلائنڈ کا ادارہ قائم کیا جہاں وہ نابینا بچوں کو مفت تعلیم اور رہائش دیتے ہیں۔ یہ مثال بھی شاید پاکستان میں نہ ملے کہ خود نابینا ہو کر نابیناؤں کی فلاح اور بہبود کے لیے کام کرنا بہت بڑی بات ہے۔سرگودھا میں ان کے ہزاروں طالب علم انہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جنہوں نے ان سے صرف انگریزی ادب ہی نہیں پڑا بلکہ زندگی کے رموز بھی سیکھے وہ اپنے طالب علموں میں بے حد مقبول استاد رہے ہیں ۔پنجاب یونیورسٹی میں بھی انہوں نے کچھ عرصہ سپیشل ایجوکیشن کا مضمون پروفیسر پڑھایا۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی پی ایچ ڈی کا موضوعimpact of British poets on Iqbalتھا۔اس مقصد کے لیے انہوں نے اقبال کی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اقبال کی فارسی شاعری کا بھی مطالعہ کیا اس طرح سے وہ چار زبانوں پنجابی, اردو ,انگریزی اور فارسی کے ماہر ہو گئے اور ان چار زبانوں میں انہوں نے خود بھی شعر کہے یہ اعزاز پاکستان میں بھی کم ہی کسی شاعر کے پاس ہوگا۔پاکستان ایسوسی ایشن فار بلائنڈ کے صدر رہے۔ بزم فکر و خیال کے صدر رہے، یہ ایک ادبی تنظیم ہے جس کے روح رواں پروفیسر شیخ محمد اقبال ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کچھ انٹرویوز یوٹیوب پر موجود ہیں ۔اس میں ایک بہت دلچسپ انٹرویو ہے جو ممتاز براڈکاسٹر ماہ پارہ صفدر نے کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سرگودھا میں ڈاکٹر شیخ اقبال ان کے ہمسائے میں رہتے تھے دونوں خاندانوں کے آپس میں اچھے تعلقات تھے۔ ماہ پارہ صفدر زمانہ طالبعلمی میں اپنی تقاریر پروفیسر اقبال سے لکھوایا کرتی تھیں۔ان کی علمی ادبی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں خاص طور پر آ نکھوں سے محروم ہونے کے باوجود زندگی کو اس شاندار اور تابناک انداز میں جینے پر اور دوسروں کے لیے روشن مثال بننے پر انہیں کئی طرح کے اعزاز اور میڈل دیے گئے۔اس برس 2023 میں سرکاری سطح پر بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ سفید چھڑی کے عالمی دن کے تناظر میں پروفیسر صاحب کی غیر معمولی شخصیت حوالے سے کالم لکھنے کا ارادہ تھا مگر بوجوہ نہلکھ پائی یہ قرض تھا جو آج ادا ہوا ۔ بلا شبہ وہ امید اور حوصلے کی روشنی بانٹتی ہوئی غیر معمولی شخصیت ہیں۔ ان کی ایک خوبصورت غزل کے کچھ اشعار قارئین کی نذر مجھے لگا کہ مری زندگی تماشا ہے صدا یہ آئی کہ ہر آدمی تماشہ ہے تمام شہر نظر کے بغیر چلتا ہے جو آنکھ میں ہے مری روشنی تماشہ ہے ہر ایک شہر کی تقدیر میں اندھیرے ہیں یہ چاند کھیل ہے کیا چاندنی تماشہ ہے تمام عمر لگی پھر ذرا سمجھ آیا یہ دل لگی ہو یہ دل کی لگی تماشہ ہے ہزار شکر کہ یہ بات تو سمجھ آئی تمہارا جبر مری بے بسی تماشہ ہے میں ایک ایسے جہاں میں پہنچ گیا ہوں جہاں اندھیرا کھیل ہے اور روشنی تماشا ہے