کسی بھی صاحبِ عقل سے پوچھو۔۔۔کامیابی کیا ہے۔۔۔جواب اس قدر مختلف آئیں گے کہ آپ حیران ہو جائیں گے۔دولت،شہرت،طاقت،محبت،سکون۔۔۔یا پھر کچھ اور؟ بے پناہ شاعرمنیر نیازی کے مطابق۔۔۔زندہ رہیں تو کیا ہے،جو مر جائیں ہم تو کیا۔۔دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا۔ہر شے کو ایک بے ثباتی کا غم سا ہے مگر یہ بات بصارت کی نہیں بصیرت کی ہے،حاصل۔۔اور لا حاصل کی یہ تکرار ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔نفس،لذاتِ کام و دھن میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔یہاں تک کہ موت چھٹی کی گھنٹی بجا دیتی ہے۔حضرت علیؓ کی دعائوں میں ایک جملہ ہے"اے اللہ مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ رکھ"۔انسانی نفس کی خواہشوں کا کو ئی انت نہیں۔یہ اپنے مالک انسان کو مرنے تک ایسی ایسی بھول بھلیوں میں قید رکھتا ہے کہ آنکھ تب کھلتی ہے جب آنکھ بند ہونے لگتی ہے۔صوفیوں کی زندگیاں دیکھو تو اندازہ ہوتاہے کہ عشقِ حقیقی انہیں دنیاوی لذات سے ماورا اور بے خبر کر دیتا ہے۔کبھی کبھی عشقِ حقیقی کی منزل کا راستہ عشقِ مجازی سے بھی ہو کر گزرتا ہے۔بہت سے اہلِ نظر ان قلبی وارداتوں اور لفظوں کی قید میں لانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔بابا جی واصف صاحب،اشفاق احمد (مرحوم) ،قدرت اللہ شہاب،بانو قدسیہ،ممتاز مفتی،پروفیسراحمد رفیق،سرفراز شاہ صاحب اور عبداللہ بھٹی صاحب بھی۔ان سے آپ ملیں یا اِن کو پڑھیں۔آپ کو کہیں نہ کہیں ایسے لطیف اشارات،حقائق اور پیغام ملیں گے اگر آپ ڈھونڈ اور تلاش کے مسافر ہیں ۔آپ بھیگیں گے ضرور۔پھوار پڑتی ہے یا بارش ہوتی ہے یا جل تھل ہوجاتا ہے یہ کالم کا موضوع نہیں ۔ میں ٹیلی وژن پر ایک پروگرام کا میزبان تھا۔روحانیت میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ کسی کام سے ایک سرکاری ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا۔جو صاحب مجھے ملے انہوں نے ملاقات کے اختتام پر ایک کتاب دی اور کہا۔۔اگر موقع ملے تو ضرور پڑھیے گا۔کتاب شروع کی یونہی رات کے پہلے پہر اور پڑھتا چلا گیا،یہاں تک کہ مؤذن کی اذان کی آواز سنائی دی تو احساس ہوا رات ختم ہونے کو ہے۔یہ کہانی تھی عشقِ مجازی کی مگر نہ جانے کیوں مجھے بار بار یہ احساس ستاتا کہ یہ سفر تو مجاز کا ہے مگر اس کے باطن میں کہیں عشقِ حقیقی کروٹیں لے رہا ہے۔"حاصلِ محبت"ایسی ہی تحریر ہے۔پاکیزہ روح کے ساتھ دنیاوی جذبوں کی کہانی۔مجاز کا یہ سفر قاری کو بار بار حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔خیال آتا ہے کہ اس ظاہری سفر کے ساتھ ساتھ اس کہانی کے باطن میں ایک ان کہی کہانی بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔اور نہ جانے کب اس کی منزل مجاز سے حقیقت کے دروازے میں داخل ہو جائے۔اس میں سب کچھ مادی ہے مگر مادے سے ماورا ہے۔احساس کا سفر ہے۔جذبوں کی شدت ہے۔آنسوؤ ںکی حدت ہے۔محبت ست محبت ہونے لگتی ہے۔حیرت کے اسرار بڑھ جاتے ہیں۔دنیاوی محبت کی تپش روح کو چھوتی ہے۔اگر آپ کو پتہ ہے کہApathyکیا ہوتی ہے تو کئی جگہ آپ خود کو مصنف کی جگہ محسوس کرتے ہیں۔لکھنے والے کی نظر سے مناظر اور واقعات کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ تحریر کو یہ وصف تب ہی میسر آتا ہے جب آپ اپنے قلم کی نِب دل کی دوات میں ڈبو کر لکھتے ہیں۔عقل کی اُڑان ،ایک ،دو، تین کی سیڑھیاں چڑھتی ہے۔جب کہ دل کی چھلانگ،عقل کے اندازوں سے بہت بلند ہوتی ہے۔عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی۔پڑھتے پڑھتے ساحر بھی یاد آیا۔دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں،جو کچھ مجھے دیا ہے،وہ لوٹا رہا ہوںمیں۔اس قدر تلخی،ایسی وحشت،اتنی شدت کی قاری پتھر کا ہو جاتا ہے۔اپنی محبت کا زکر کرتے ہوئے وہ کوئی ملامتی صوفی لگتا ہے۔عورت کی ذات سے جنم لینے والے بے شمار تضادات کی جو جھلکیاں"حاصلِ محبت"میں نظر آتی ہیں وہ مصنف کے قلم کو امتیاز عطا کرتی ہیں۔وہ اپنی اس تخلیق کو بے ادبی قرار دیتا ہے مگر وہ یہ بے ادبیاں بڑے تسلسل سے کر رہا ہے۔بانو آپا کہتی ہیں جس لکھنے والے کی تحریر میں ملامتی رنگ نظر آئے وہ عام آدمی نہیں ہوتا۔رائٹر کے متعلق وہ کہتی ہیں کہ وہ دوئی کے ہوتے ہوئے یک جائی پر اسرار کرتا ہے جو بذاتِ خود ایک سوال ہے۔عبداللہ بھٹی روحانیت کے ماسٹر ہیں اُن کے مطابق اس کتاب میں انہیں ادھیڑ کر رکھ دیا ۔ "حاصلِ محبت"میں وقت کی سی روانی ہے اور جذبوں ک لامکانی بھی ہے۔مگر ھجر کے سمندر میں ہر تخت اور تختے کی کہانی ایک سی نہیں ہوتی۔کیسے؟اس کتاب سے چند اقتباس۔شاید آپ بھی اس سے لطف اٹھائیں۔"محبت کی بدقسمتی ہے کہ یہ موقع محل کے بغیر،کسی جمع تفریق سے اُوپر،ہمیشہ ذات پات،معاشی اور معاشرتی تفریق کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔اس میں رسوائی،جگ ہنسائی زیادہ ہے۔عزت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی"۔"ٹیڑھی پسلی کی خوبصورت تخلیق اندر سے کتنی پیچیدہ اور ٹیڑھی ہو گی۔۔ یہ شاید آدم اوّل سے آدم آخر تک نہ معلوم کر سکے""عورت ثابت قدم ہو تو اولیاء کے رتبے پر فائز ہو سکتی ہے۔یہ بیک وقت طوائف بھی ہے اور پارسا بھی"۔ــ"محبت کی خطا،خالق کی عطا ہے"۔"وقت انسان کی دسترس میں ہے جب کہ انسان وقت کی دسترس سے باہر ہے۔ہاں اس پر قدرت انسان کی معراج،نماز اور ظرف پر منحصر ہے"۔"نیکی اور بدی کن فیکون سے لے کر صور پھونکنے تک قائم اور مدِ مقابل رہیں گے"۔"محبت کے لیے عمر اور وقت متعین نہیں ہوتا۔یہ زمان اور مکان دونوں کی قید سے آزاد ہوتی ہے"۔ زندگی کے پرچے میں /سوچ کر وفائوں کو/سب سوال اُلٹے تھے/سب حروف ترچھے تھے/یادوں کے جھروکوں میں/رات وہ انوکھی تھی/زندگی کے پرچوں میں/منصور اور شبلی بھی/ہاتھ میں زنجیر لیے/اکثر فیل ہوتے ہیں/اناالحق کہتے ہیں/اور مرتے رہتے ہیں گڈلک۔۔۔کیپٹن لیاقت ملک صاحب،گڈ لک۔