سید الشہدا حضرت امام حسینؓ کی حیات اور ذات والا صفات کے ان گنت پہلو اور رنگ ہیں، جن کا احاطہ مورخیں چودہ سو سال سے کر رہے ہیں لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہو رہا۔آپ دس محرم کے دن کو ہی لے لیجیے، یہ دن آپ کی شہادت سے قبل مختلف حوالوں سے پہچانا جاتا تھا۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے عرش‘ زمین‘ کرسی‘ سورج‘ چاند ستارے اور جنت دس محرم کو تخلیق کئے۔حضرت آدمؑ اور حضرت حوا نے بھی دس محرم کو آنکھ کھولی تھی۔دس محرم ہی وہ دن تھا ،جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ اور بی بی حوا کی دعا قبول کی تھی۔اس دن حضرت ابراہیم ؑپیدا ہوئے تھے، اس دن حضرت ابراہیم ؑ کو آتش نمرود سے نجات ملی تھی۔اس دن فرعون کا لشکر پانی میں غرق ہوا تھا۔اس دن حضرت موسیٰ ؑ کو فتح نصیب ہوئی تھی ،اسی دن حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے۔اس دن حضرت یوسف ؑ کو کنوئیں سے نکالا گیا تھا۔اس دن حضرت یعقوب ؑ کی بینائی لوٹائی گئی تھی، اسی دن حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے اور اسی دن حضرت عیسیٰ ؑ دنیا سے زندہ اٹھائے گئے تھے۔غرض کائنات کے بڑے فیصلے دس محرم کو ہوئے تھے۔لیکن پھر دس محرم کو حضرت امام حسین ؓ نے شہادت قبول فرما کر اس دن کا حوالہ بدل دیا ۔10اکتوبر 680ء اور 10محرم 61ھ کو آپ کی شہادت کے بعد دس محرم حضرت امام حسین ؓ کا دن ہو گیا چنانچہ اس دن نیوزی لینڈ سے لے کر سائبیریا تک‘ کربلا سے لے کر آئس لینڈ تک اور انٹارکٹکا سے لے کر جمیکا تک پوری دنیا دس محرم کو حضرت امام حسینؓ کا دن سمجھتی ہے۔ یہ انسانی کیلنڈر کا وہ واحد دن ہے، جس روز دنیا کی ہوائیں، فضائیں لہریں ،خوشبوئیں اور کرنیں تک مغموم ہو جاتی ہیں۔جس دن ہوا کی آنکھوں میں آنسو‘ بادلوں کے دل میں ٹیس‘ زمین کے جگر میں خراش اور آسمان کے ضمیر پر درد جاگ اٹھتا ہے اور کائنات کے آخری سرے تک درد کی شام غریباں بچھ جاتی ہے۔یہ دن کیلنڈر کے 360دنوں کا نوحہ چیخ اور سسکی ہے اور اسی دن دنیا کی ہر تخلیق سارے حیوانات ‘ نباتات اور جمادات دکھ میں غرق ہو جاتے ہیں۔یہ دن حقیقتاً حضرت امام حسینؓ کا دن ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے حضرت امام حسینؓ کا وہ کون سا فریضہ انجام دیا جس کے صدقے دس محرم کے سارے حوالے تبدیل ہو گئے۔ وہ فریضہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل بیعت کی قربانی کا تھا؟ وہ کارنامہ آپؓ اور آپ ؓکے صاحبزادوں آپ ؓکے خاندان اور کنبہ رسولؐ کی شہادت تھا ۔آپ کی شہادت نے تاریخ اسلام میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ مگر دس محرم کے پہلو میں اس کے علاوہ بھی بے شمار زاویے پوشیدہ ہیں اور ان زاویوں میں ایک زاویہ اسلام کی اسپرٹ کاہے۔ اسلام دنیا کا پہلا اور واحد مذہب تھا(اور ہے) جس نے برائی کے خلاف جدوجہد کو جہاد کا نام دیا تھا۔جس نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا تھا‘ برائی کا ہاتھ روکو‘ نہ روک سکو تو اسے منہ سے برا کہو۔نہ کہہ سکو تو دل میں اس کی مذمت کرو۔لیکن یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے۔یہ دنیا کا واحد مذہب تھا، جس نے تعداد کے بجائے جذبے کو فوقیت دی اور جس نے نیت کو وسیلہ پر فوقیت دی۔یہ وہ مذہب تھا، جس نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ اگر تمہارے پاس تلواریں نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں تمہارے پاس اگر ترکش نہیں تیر بھالے اور نیزے نہیں ہیں تمہارے پاس گھوڑے اونٹ اور خچر نہیں ہیں۔تم ننگے پائوں‘ بھوکے پیٹ اور بے چھت ہو اور اگر تم تعداد میں بھی کم ہوتو بھی کوئی پرواہ نہیں بس تم اللہ کے نام پر بدر کے میدان میں پہنچو‘ اللہ کے حضور دعا کرو اور دن کے دشمنوں سے بھڑ جائو‘ اللہ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے کہا تھا کہ تم صرف اس شخص کی امارت تسلیم کرو جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے روگردانی نہ کرے۔جو اس کے دین میں ذاتی انا ضد اور تکبر کی ملاوٹ نہ کرے۔جو اللہ کے احکامات میں نظریہ ضرورت کی آمیزش نہ کرے اور سیدالشہدا اسلام کے اس نظریے، اس فکر اور اس فلسفے کے امام تھے اور انہوں نے اسلام کی اسپرٹ پر عمل کرتے ہوئے کلمہ کو آمریت کے خلاف علم بلند کر دیا انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا اسلام میں تعداد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔آپ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اسلام میں دنیاوی کامیابی اہمیت نہیں رکھتی اور آپ نے ثابت کر دیا اسلام قول و اقرار کا مذہب ہے اور اس میں جب کسی سے وعدہ کر لیا جائے تو اس پر قائم رہتے ہیں ۔خواہ کوفہ کے سارے شہری ’’کوفی‘‘ کیوں نہ ثابت ہو جائیں آپ نے ثابت کر دیا اسلام میں کربلا میں داخل کے ہزاروں دروازے ہیں لیکن اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور اسلام میں شہادت سب سے بڑا اعزاز ہوتی ہے۔یاد کیجیے دس محرم 61ہجری کو جب کربلا میں نواسہ رسولؐ کا سرقلم کیا جا رہا تھا جب آپ کا سر مبارک شمر نے نیزے پر ٹانک دیا تھا‘جب شہدائے کربلا کی نعشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے اور جب اہل بیعت کے خیموں کو آگ لگائی جا رہی تھی اور وہ پاک بیبیاں جن کے چہرے پر پہنچ کر سورج کی کرنیں بھی پردہ کر لیتی تھیں اور ہوا انہیں چھونے سے پہلے ہزار بار آب زم زم سے غسل کرتی تھی وہ بیبیاں جب ننگے سر ننگے پائوں خیموں سے باہر نکلیں تو اس وقت کوفہ کے لوگ کیا کر رہے تھے۔ وہ اس وقت خلافت کا جشن منا رہے تھے۔حضرت امام حسینؓ ایک جدوجہد کا نام ہے۔ وہ ایمان ،جرأت اور جہاد کی عملی شکل ہیں اس لئے ہمیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا میں حضرت امام حسینؓ نہ ہوتے اگر وہ کربلا میں اپنے خاندان کی قربانی نہ دیتے تو شاید دنیا میں کوئی شخص برائی کے خلاف اکیلا کھڑا نہ ہوتا۔ یہ حضرت امام حسینؓ کی قربانی تھی، جس نے لوگوں کو طاغوت سے ٹکرانے اور وقت کے فرعونوں کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا ۔جس نے تاریخ عالم کو سمجھایا کہ دنیا کی ہر شکست وقتی اور ہر فتح عارضی ہوتی ہے اور دنیا میں صرف حق اور سچ کو مستقل حیثیت حاصل ہے۔