یہ ایک بو گس دلیل ہے کہ لانگ مارچ کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے ۔ایسا احتجاج جو کروڑوں پاکستانیوں کے پرامن زندگیوں میں خلل ڈالے ،ان کے روزمرہ امور کی انجام دہی مفلوج کر کے ر کھ دے میری نا قص رائے میں اسے جمہوری احتجاج کا درجہ نہیں دیتی۔جمہور لوگوں کو کہتے ہیں عوام کو کہتے ہیں اور اس طرح کے لانگ مارچ جمہور ہی کے لیے عذاب کا باعث بن جاتے ہیں۔چوہدری صاحب کی بیٹی کی شادی اس جمعہ کو ہونا طے پائی تھی بارات اسلام آباد سے لاہور آنا تھی سیاسی عدم استحکام اور کپتان کے لانگ مارچ کے اعلان نے گھر میں افراتفری کا سامان پیدا کر دیا۔صورتحال کی بے یقینی کے باعث شادی دوہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔ ایک اسکول کا ٹرپ اس جمعہ کو خان پور ڈیم کی سیر کو جانا تھا۔انتظامات مکمل تھے ،طالب علم بہت خوش تھے مگر لانگ مارچ کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی بے یقینی کی صورتحال میں اسکول کا ٹرپ کینسل کرنا پڑا۔ شہر کے بیشتر اسکولوں نے جمعے کے روز کلاسوں کو آن لائن کر دیا ہے۔ کئی تعلیمی اداروں نے طالب علموں کو سیاسی حل حالات کے پیش نظر چھٹی دے دی ہے تاکہ والدین اور بچے سڑکوں پر خوار نہ ہوں۔سیاسی احتجاج کا یہ اچھا جمہوری حق ہے جس سے عام لوگوں کی زندگیاں یرغمال بنا دی جائیں۔اس کے علاوہ لانگ مارچ کے دنوں کنٹیروں سے بند راستوں والے شہر میں مریضوں پر بیتتی ہے اس کا کون والی وارث ہے۔ہماری عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ لانگ مارچ کے سیاسی احتجاج پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔کہ وہ عام پاکستانی کی زندگی کو بے یقینی سے دوچار کرکے ان کے روز مرہ کے امور نمٹانے سے مفلوج کردے ۔لانگ مارچ پہلے بھی اس ملک میں ہوتے رہے ہیں۔عمران خان اور کتنے دھرنے اور لانگ مارچ اس ملک میں دینا چاہتے ہیں کیا آپ کبھی ان کے دھرنوں اور لانگ مارچ سے مسائل حل ہوئے حقیقت یہ ہے کہ لانگ مارچ لوگوں کی زندگیوں کو عذاب سے دوچار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔پاکستانیوں کا کیا قصور ہے کہ ہر تھوڑے دن کے بعد ان کی زندگیوں پر احتجاج کا یہ جمہوری حق مسلط کردیا جائے۔ان حالیہ برسوں میں ہے عوام نے بہت سے لانگ مارچ بھگت لیے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن اور بلاول زرداری کے لانگ مارچ جن سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔خان کا بھی یہ تیسرا لانگ مارچ تو ہوگا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جس مقصد کے لیے لانگ مارچ ہوئے۔عام لوگوں کی زندگیاں عذاب میں ڈالی گئیں وہ مقصد کبھی بھی لانگ مارچ سے حاصل نہیں ہوا۔پاکستان کا سیاسی نظام اسوقت بہت باریک دھاگے چل رہا ہے۔ یہ نظام اس وقت بہت ہی فرجائل ہے اس کو اگر ٹکراؤ اور نتشار کی سیاست کے سپرد کیا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔اس لانگ مارچ کی صورت سوائے ٹکراؤ کے اور کیا ہوگا۔اس موقع پر بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے ٹکراؤ کی صورت میں بہت نقصان ہوگا۔قومی معیشت بھی وینٹی لیٹر پر آئی ایم ایف نے 600 ارب کے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر دیا۔اسحاق ڈار اپنی سی کوشش کر رہے ہیں معیشت کو کنٹرول کرنے کی لیکن حالات ان سے بھی سدھر نہیں رہے۔ ایک عام فرد کی معاشی صورتحال بھی ابتر ہے۔متوسط اور غریب طبقے کے لیے بنیادی اخراجات پورا کرنا مشکل ہے۔ لانگ مارچ میں راستے بند کردئیے جاتے ہیں۔ دیہاڑی دارطبقے کی معاشی سرگرمی کو بدترین دھچکا لگتا ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کھانے سے بھی جاتا ہے۔ ملک کی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے۔ پہلے کرونا سے معیشت کو دھچکا لگا اب سیلاب کی آفت نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ساڑھے تین کروڑ پاکستانی سیلاب متاثرین ابھی مسائل کے برزخ میں جی رہے ہیں۔سرد موسم کا آغاز کہیں ہوچکا اور کہیں ہونے والا ہے۔ ایسے میں خیموں میں بیٹھے ہوئے سیلاب متاثرین امداد اور توجہ کے مستحق ہیں۔پہلے ایسے لایعنی لانگ مارچوں سے کیا حاصل ہوا جو اب آپ حاصل کر لیں گے۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ بہت سارے مریض اسپتالوں میں نہیں پہنچ سکے لوگوں کے پروگرام کینسل ہوئے۔ لوگ پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ ہوئی پہلا دھرنا جو آپ نے اتنا طویل دھرنا دیا اس سے بھی آپ کچھ حاصل نہیں کرسکے۔پھر اے پی ایس کا سانحہ ہوا اور انہیں غیر مقبول ہوتے دھرنے کی بساط لپیٹنا پڑی اس سانحے سے آپ کو ایک طرح سے فیس سیونگ مل گئی۔ 126 دن کا دھرنا ایک سیاسی تماشہ سے بڑھ کر اور کچھ نہ تھا ۔خدا کے لیے لانگ مارچ کے ارادے کو ختم کریں کہ پاکستان اور غریب پاکستانی اس ٹکراؤ اور انتشار کے متحمل نہیں ہے۔عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس نے اس لانگ مارچ پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔عمران خان جس طرح بار بار یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ یہ پرامن مارچ ہو گا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرامن نہیں رہ سکے گا۔اگر لانگ مارچ کے اس سیاسی شغل میں کسی ایک شخص کی جان بھی چلی جاتی ہے تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔میں تو اس کالم میں ہاتھ جوڑ کے گزارش کروں گی کہ خدا کے لئے اس لاحاصل احتجاجی سرگرمی سے گریز کریں۔ ایسا نہ ہوکہ لانگ مارچ کا یہ سیاسی شغل عوام ریاست اور سیاسی عمل کے لئے ایک بھیانک خواب ثابت ہو۔