آج ایک کام کریں کہ سال کے اختتام پر ایک خط اپنے آپ کو لکھیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنے پورے سال کا جائزہ لیں آپ نے سال کیسے گزارا۔آپ جو کوئی بھی ہیں کوئی افسر،کوئی کاروباری,استاد، خاتون صرف گھر کا بوجھ اٹھانے والی یا دوکشتیوں کی سوار ورکنک لیڈی، منزل پر پہنچنے کے خواب دیکھنے والا طالب علم یا پھر نوجوان پروفیشنل، کوئی تخلیق کار،لکھاری ،صحافی یا کوئی انٹر پیونیور آج ایک خط اپنے نام لکھیں اور گزرے ہوئے سال کا دیانت داری سے جائزہ لیں۔ آپ نے سال 2022 میں اپنے وقت کی کتنی قدر کی۔قدرت کے اس خزانے کو آپ نے پائی پائی دیکھ بھال کے استعمال کیا کہ بے قدری کرتے ہوئے اسے ایسے فضول کاموں میں اڑایا جس کا کوئی حاصل حصول نہیں تھا۔اس سال کے آغاز پر نئے سال کے ارادوں کے فہرست آج کے دن نکال کر دیکھیں یا اپنے ذہن میں تازہ کریں کہ کون سے اہداف آپ نے حاصل کیے اور کون سے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔آپ نے جو کرنا چاہا اس کام پر کتنا فوکس کیا۔یا اپنے کام کو کتنی اہمیت د ی، کتنا وقت آپ نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر گزارا۔ میں اگر دیانتداری سے اس سال کا جائزہ لوں تو تو میں کہہ سکتی ہو کہ یہ برس پچھلے سالوں کی نسبت میں نے بہتر طور پر گزارا ۔یہ حقیقت ہے کہ جتنا کام مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کر سکی، مطلب سال کے آغاز میں میرا ارادہ تھا کہ اس دفعہ اس سال کے آغاز ہی میں پہلی سہ ماہی میں کتاب آجائے گی لیکن میں باوجود کوشش کے اس کام پر وہ توجہ نہیں دے سکی۔ یہ کام اتنا لٹکتا گیا کہ سال کے اختتام میں جب دو مہینے رہ گئے تو کام مجھے احساس ہوا کہ حد سے بڑھی ہوئی کاملیت پسندی یعنی پرفیکشن ازم کی وجہ سے میرا کام مکمل نہیں ہو رہا اور میں کتاب پبلشر کو نہیں دے پا رہی ہے۔ہم میں سے بہت سے لوگ کاملیت پسند ہوتے ہیں۔اور وہ بساط بھر چیزوں کو مکمل بہترین صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چند سال پیشتر میں اس عادت کو خوبی سمجھتی تھی۔پھراس موضوع پر کافی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے بعد پتا چلا کہ کاملیت پسندی کی حد سے بڑھی ہوئی عادت انسان کو ناکامی سے دوچار کرتی ہے۔ بہت سے لوگ لوگ کاملیت پسند ہونے کی وجہ سے وقت پر فیصلے نہیں کر سکتے۔انسان ایک حد تک کوشش کر سکتا ہے اور اس کے بعد اسے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس عادت کو زندگی کسی بھی میدان میں کسی بھی موضوع پر اپلائی کر دیکھیں تو آپ کومحسوس ہوگا کہ کاملیت پسند لوگ زندگی میں مشکل اور ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دوست مجھے ملیں اور ان کی شادی نہیں ہوئی تھی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہوئی کہ تم نے شادی نہیں کی اس نے کہا کہ مجھے کوئی پسند نہیں آیا اور میرے والدین کو بھی پتہ تھا کہ میرے رویے میں لچک نہیں ہے اور میں سمجھوتہ نہیں کر سکتی ۔انہوں نے یہ فیصلہ بھی مجھ پہ چھوڑ دیا کہ جب تمہیں کوئی اچھا لگے تو ہمیں بتا دینا۔میری دوست ایک کارپوریٹ سیکٹر میں اچھے عہدے پر کام کرتی تھی میں نے پوچھا پھر کیا وجہ ہے کہ تمہیں زندگی میں کبھی کوئی اچھا نہیں لگا تو اس نے کہا نہیں اچھا تو لگا تھا لیکن اس میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوتی تھی جو میرے بنائے ہوئے پیرامیٹر پر پوری نہیں اترتی تھی ،یعنی کاملیت پسند لوگوں کے رویے بھی لچک دار نہیں ہوتے۔صاف ستھرا ترتیب سے مہکتا ہوا گھر کسے پسند نہیں مگر ہماری ایک ملنے والی آنٹی ہے جنہیں جنون کی حد تک صفائی اور ترتیب کا احساس رہتا ہے اس حد تک کہ یہ خواہش اور یہ عادت ان کی ایک بیماری میں ڈھل گئی ہے یعنی گھر کی ایک چیز بھی یہاں سے وہاں ہونے سے ان کو ایسا لگتا ہے کہ زندگی ہل کے رہ گئی ہے۔سو اس سال جو ایک اہم بات میں نے سیکھی ہوئی ہی تھی کہ کاملیت پسند انسان کو ناکامی سے دوچار کرتی ہے کیونکہ پرفیکشن ازم ایک پراسس کا نام ہے انسان imperfection کو قبول کرکے بہتر سے بہتر کی کوشش کرتا رہے مگر اس شکنجے کا اسیر ہو کر اپنی زندگی کو بوجھل نہ بنائے کیونکہ زندگی کالے اور سفید میں نہیں بلکہ سرمئی منطقے پر گزرتی ہے۔ وزن کو کم کرنے کے لیے جتنے بڑے بڑے ارادے اور خواب میں نئے سال کے آغاز میں دیکھے تھے اس میں جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ کسی بھی قسم کی کریش پروگرام سے ہم وزن تو کم کرسکتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم اس کریش پروگرام سے نکلتے ہیں ہمارے جسم کا وزن پھر سے بڑھنے لگ جاتا ہے۔اس بار پورشن کنٹرول پر زیادہ بہتر انداز میں فوکس کیا اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔اس برس ایک اور مشاہدہ یا تجربہ زندگی میں شامل ہوا کہ اگر ہم اپنے فوکس کو وزن کم کرنے سے ہٹا کر صحت مند طرز زندگی اپنانے کی طرف رکھیں تو زیادہ بہتر نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ طرح اپنے طے شدہ ٹارگٹ کے مطابق پر وزن کم نہ ہونے نہ سے جو مایوسی پیدا ہوتی ہے ہم اس سے بچ جاتے ہیں۔ صحت مند طرز زندگی اپنائے رکھنے پر خود کو شاباش دینے سے اپنی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے۔ بہت ساری اچھی عادتیں اور صحت مندانہ طرز زندگی اپنانے کی وجہ سے اپنی زندگی میں شامل کی اور اس سے زندگی کی پوری تصویر خوشنما ہوجاتی ہے۔ ایک اور چیز جو میں نے اپنی زندگی میں شامل کی وہ یہ تھی کہ فیس بک پر وقت کم ضائع کرنا ہے اس میں بھی کوشش کی کہ سال میں کچھ نہ کچھ کچھ وقفے کے بعد سوشل میڈیا سے مکمل وقفہ لیا اور محسوس کیا زندگی کی اصل ہما ہمی کو محسوس کرنے کے لیے کہ یہ انعام ہمیں خود کو اکثر دیتے رہنا چاہیے۔