آئندہ اسی ماہ جون کی 9 تاریخ کو وفاقی بجٹ پیش کیا جانا ہے، غالباً یہ ملکی تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس کے پیش ہونے سے قبل تجاویز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ گویا ثابت ہوا کہ حکومت کی معاشی و اقتصادی ساکھ اچھی نہیں اور اس پر کسی شعبے کو زیادہ اعتبار نہیں۔ اب اس میں کس کا قصور ہے؟ سب جانتے ہیں کہ حکومت ڈلیور کرنے میںبری طرح ناکام رہی ہے۔ حکومتی کارکردگی کا اندازہ لگائیں کہ جولائی تا مئی تجارتی خسارہ 25 ارب 79 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہوگیا، رواں سال کے 11 ماہ میں برآمدات میں 12.14 فیصد کی کمی ہوئی، ملک کے تجارتی خسارہ میں جاری مالی سال کے 11 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 41 فیصد اور مئی میں 49 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جاری مالی سال کے دوران ملکی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 12 فیصد جبکہ درآمدات میں 29 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے، پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق جولائی 2022ء سے لے کر مئی 2023ء تک تجارتی خسارہ کا حجم 25.79 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ، اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ملکی برآمدات کاحجم 25.36 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 12 فیصد کم ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں برآمدات سے ملک کو 28.87 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ملکی درآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 29 فیصد کی کمی ہوئی ہے، جولائی 2022ء سے لیکر مئی 2023 ء تک کی مدت میں ملکی درآمدات کاحجم 51.15 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 72.28 ارب ڈالر تھا. مئی میں ملکی درآمدات پر 4.275 ارب ڈالر کا زرمبادلہ صرف ہوا جوگزشتہ سال مئی کے 6.76 ارب ڈالر کے مقابلہ میں 37 فیصد کم ہے، اپریل کے مقابلہ میں مئی میں ملکی درآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 43 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی ہے، ایسی صورتحال اور اعداد و شمار کے بعد کون حکومت سے بہتری کی توقع رکھ سکتا ہے، آئندہ پیش ہونے والے بجٹ پر البتہ تمام حلقوں کی نظریں ہیں۔ کاروباری حلقوں میں تاثر پایا جا رہا ہے کہ حکومت بجٹ میں بڑا ریلیف دینے جارہی ہے، ایسا ممکن بھی نظر آتا ہے، جیسے یکم جون کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بھی گر رہی ہے مگر آئندہ پیش ہونے والے وفاقی بجٹ میں اگر زمینی حقائق کے برعکس ریلیف کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو اس صورت میں مادر وطن کو مستقبل قریب میں مزید بحرانوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فی الوقت بھی مارکیٹوں میں بحران اپنے پنجے گاڑے بیٹھا ہے، ان سارے نامساعد حالات کے منفی اثرات براہ راست عام پاکستانی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ مہنگائی کی 45 فیصد کے قریب خوفناک شرح نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے لیکن ان ایشوز پر کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ عام پاکستانی کا اس ضمن میں میڈیا سے شکوہ غلط نہیں، جب ایک مزدور سارا دن خون پسینہ بہانے کے باوجود اپنے اہل خانہ کا پیٹ نہ بھر سکے، بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھے تو کیا اسے اتنا بھی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی محرومی پر حکمرانوں کو کو سے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، دنیا بھر میں حکومتوں کی پالیسیاں عوام کو حامی یا مخالفت بنایا کرتی ہیں لیکن افسوس پاکستان میں اس کی کبھی کسی نے پرواہ نہیں۔ حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیاں ناکامی کی داستان بیان کرتی ہیں۔ حکومت کے بارے میں کیا بات کریں جو تاحال آئی ایم ایف سے قسط تک حاصل نہیں کرسکی۔ تیونس کے صدر نے ایک مثال پیش کی ہے، شمالی افریقی ملک تیونس نے آئی ایم ایف سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیا۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے آئی ایم ایف کے غیر ملکی حکم سے بچنے کے لیے ملک کے امیر ترین شہریوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی ہے، تیونس کی گزشتہ اکتوبر میں تقریباً 2 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر اصولی طور پر ایک معاہدے تک پہنچنے کے باوجود، عوامی اداروں کی تنظیم نو اور بنیادی اشیا پر سبسڈی ختم کرنے کے مطالبات پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت مہینوں سے تعطل کا شکار ہے، وہاں کے وزیر اعظم نجلا بودن سے ملاقات کے دوران صدر قیس سعید نے اسلام کے دوسرے خلیفہ عمر ابن الخطاب سے منسوب ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے’’غریبوں کو دینے کے لیے امیروں سے زائد رقم لینے’’ کا خیال پیش کیا، قیس سعید نے کہا کہ ریشنلائزیشن کے نام پر سبسڈی ختم کرنے کے بجائے، ان لوگوں پر اضافی ٹیکس لگانا ممکن ہوگا جو ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار کا مطلب یہ ہوگا کہ غیرملکی قرض کے سامنے ملک کو جھکنا نہیں پڑے گا۔ تیونس کے وزیر خزانہ سیہام نیمسیح نے خبردار کیا کہ قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی ریاست کے دیوالیہ ہونے کا باعث بنے گی۔ تیونس کی پارلیمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ملک کے لیے افریقی ایکسپورٹ، امپورٹ بینک سے نصف بلین ڈالر کا قرض حاصل کرنے کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے، ہماری حکومت کو ایسے اقدامات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، آخر کب تک ہم اشرافیہ کی معشیت کو چلاتے رہیں گے، جس کا بین الاقوامی اشرافیہ سے کٹھ جوڑ ہے، کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے قرضوں کی بجائے صنعتی افزائش ضروری ہوتی ہے۔ ہم آج تک وطن عزیز میں برآمدات کے شعبہ کو مضبوط نہیں بنا سکے، جس کی سب سے بنیادی وجہ ٹیکسٹائل اور زراعت کے علاؤہ کسی اور شعبہ کو ترقی کی جہتوں پر نہ پہنچانا ہے، اس وقت دنیا میں آئی ٹی کی صنعت زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، افسوس اپنی نسل نو کی اس شعبہ میں بھی حوصلہ افزائی نہ کرسکے۔ ناجانے کس چیز کا انتظار ہے کہ بہترین دماغوں کے باوجود 75 سال سے پستے چلے آ رہے ہیں، حکومتی عدم توجہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس کے باعث آئندہ پیش کیے جانے والے بجٹ سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔