جھْمِر رشتہ دار نوجوانوں، یار دوستوں کیطرف سے ڈھول یا نقارے کی تھاپ پر کیا گیا ثقافتی رقص ہے۔ ڈھولچی کے گرد دائرے کی شکل میں منظم انداز میں اسے کھیلا جاتا ہے۔ کھڑاویں، ولہانویں، پھیرویں اس کے کئی روپ ہیں۔ جھمر ہر روپ میں بے ساختہ اور باکمال انداز ہے۔ خوشی کے اظہار کا۔ وہ جھمر ہی کیا جس سے ایک جہاں نہ جھوم اٹھے۔ یہ بڑی محنت اور ریاضت کا کام ہے۔ شروع ہو تو گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ ڈھول کی لے تیز ہوتی جاتی ہے اور میدان خالی ہونا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ دو مدِ مقابل بچتے ہیں۔ ڈھولچی ہی ہار جیت کا فیصلہ کرتا ہے۔ بلاتخصیص ، ہر ثقافتی گروہ میں جھمر خوشی کا باوقار اظہار ہے۔ لڈی ، سمی ، اتن۔۔۔ سب اسی کے نام ہیں۔ روہی ، تھل اور دمان میں اسے جھمر ہی کہا جاتا ہے۔ شہروں میں جھمر تو ہوتی ہے لیکن جھومری رشتہ دار یا دوست نہیں بلکہ کرائے کے ہوتے ہیں، باقاعدہ معاوضہ طے ہوتا ہے اور ڈھولچی کو انعام کی توقع الگ ہوتی ہے۔ جھمر پیشہ لوگ چوکوں اور چوراہوں پر مول تول کرتے نظر آتے ہیں۔ انکے لباس اکثر شوخ رنگ کے ہوتے ہیں، عام شہریوں سے منفر د نظر آتے ہیں۔ دیہاتوں میں کسی کی شادی پر جھمر نہ کھیلنا باقاعدہ نوٹ کیا جاتا ہے اور عذر کی چھان بین بھی کی جاتی ہے۔ یہ وہاں ہوتا ہے جہاں رشتے ہوتے ہیں، پیار ہوتے ہیں۔ شہروں کے مادیت پرست ماحول میں یہ سب کہاں۔ دیہات کی شادیوں میں مہندی والی رات کے علاوہ جھمر اگر کہیں اور دیکھنے کو ملتی ہے تو درگاہوں پر۔ جب لوگوں کی منتیں اور من کی مرادیں پوری ہوتی ہیں تو وہ قریبی صاحب کرامت بزرگ کے مزار پر جاتے ہیں۔ درگاہوں پر جھمر وہاں دھمال سے میل کرتی ہے۔ جھمر اپنے معیار کا تعین یہیں کر تی ہے اور اپنی ثقافتی قبولیت کی سند بھی لیتی ہے۔ پیشہ ور جھومریوں کا یہاں بھی کوئی کام نہیں۔ معیوب سمجھا جاتا ہے انہیں لے کر وہاں جانا۔ اگر آپ جھمر نہیں کھیل سکتے تو نہ کھیلیں، باوقار انداز میں فاتحہ پڑھیں، لنگر کھائیں اور واپسی کی راہ لیں۔ مجھے یہ سب اس لیے یاد آیا ہے کہ وفاق پاکستان کی ایک سابقہ حکمران پارٹی کے پاس جنوبی پنجاب ( تھل اور دمان) میں چند ہی قد آور شخصیات بچ گئیں ہیں۔ یہاں اسکے جلسوں میں جھمر بے حد پڑتی ہے لیکن ووٹ نہیں پڑتے۔ پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ اسے جھمر کی نسبت سے ووٹ کیوں نہیں پڑتے۔ کہاں تھل اور دمان کا علاقہ دوسرا سندھ تھا اور کہاں یہ نوبت ہے کہ سیاسی ورکروں میں جھومری ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ کوئی بحث مباحثہ ، اختلاف رائے برداشت ہی نہیں کرتے۔ اس طرح تو سیاست آگے نہیں چلتی۔ پارٹی نے تو جب بھی موقع ملا بہت کچھ دیا۔ تیس ارب روپے کا خصوصی پیکج ملتان اور اس کے گردو نواح میں خرچ ہوا تو اس میں پارٹی تو ذمہ دار نہیں ہے نا! ایک ہی خاندان شہر کی نمائندگی کو اپنے اندر سمیٹ لے گا تو باد مخالف کی صورت میں پارٹی کیمپ اکھاڑنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ کہاں جنوبی پنجاب میں کامیابی وفاق میں اس پارٹی کی حکمرانی کی ضمانت تھی اور اب یہ حالت ہے کہ سوکھے کی بیماری لگی ہوئی ہے۔ سیاسی کارکنان کی بھرتی پارٹی اپنے طور پر نہیں بلکہ جھومری مزاج تنظیموں کی وساطت سے کر رہی ہے جو الیکشن کے دنوں میں جلسوں کی زینت بنتے ہیں اور باقی دنوں میں اپنا دھندھے پر لگے رہتے ہیں۔ میں گواہ ہوں اس سلوک کا جو ان جھومریوں نے ادیبوں ، دانشوروں اور شاعروں کے ساتھ روا رکھا ہواہے۔ جھومری طے کر رہے ہیں انداز فکر و فن ، موضوعات سخن کیا ہوں۔ اختلاف رائے کو سمجھنے اور معاملہ مناسب فورم پر اٹھانے کی بجائے اسے جھومریوں کی سیف بیانی کے زور پر دبایا جائیگا تو بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے، اسکا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر علاقے کی اپنی اپنی ثقافت ہوتی ہے اور اسکے اظہار کے اپنے طریقے بھی۔جھمر کے ثقافتی مقام اور مرتبہ بجا کہ اس پر کتابیں کیا دیوان لکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن کسی خطے کے ثقافتی اور ادبی ورثے کو جھومریوں کے رحم پر چھوڑ دینا ، ناانصافی ہی نہیں سراسر ظلم ہے۔ شاعری کے موضوعات کیا ہوں اور کیا نہ ہوں اس پر سیاسی پارٹی کی مداخلت نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹی کا موضوع اگر بنیادی حقوق رہیں تو بہتر ہے۔ شاعر اور ادیب کسی معاشرے کی روح بھی ہوتے ہیں اور آئینہ بھی۔ وسیب اور معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ انکی زبان پر بے ساختہ آجاتا ہے۔ اس آواز کو دبانا اور واقعی دبا لینا ، عدل کے زریں اصولوں کے خلاف ہے۔ ان سے بات کریں ، انکی سنیں اور بہتر ہے انکی مانیں۔ جھمر آ پ کے ہونٹوں پر تبسم لاسکتی ہے لیکن ووٹ نہیں دلا سکتی۔ یہ جھمر نہیں جھومر ہے۔ اصلی اور بازاری کا فرق لازم ہے۔ مشتری ہوشیار باش!