Common frontend top

ہارون الرشید


اقبالؔ کا عَلم


اقبالؔ کی وفات کے فوراًبعد سید سلیمان ندوی نے کہا: فلسفے اب اس سے نکالے جائیں گے۔ رہنمائی اب اس سے طلب کی جائے گی۔ ہو اگر خود گر و خودنگرو خودگیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے احرار 1930ء کے عشرے میں بہت طاقتور تھے، احتجاج کے خوگر۔ ایک تحریک کا اعلان کیاتوپنجاب کے وزیرِ اعظم سرسکندر حیات نے مذاکرات کی پیشکش کی۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری نہیں تب’’زندگی‘‘ کے مصنف چوہدری افضل حق امیر تھے۔ چوہدری صاحب نے ایوانِ وزیرِ اعظم جانے سے انکار کر دیا۔ وزیرِ اعظم احرار کے دفتر میں پیش
جمعرات 12 نومبر 2020ء مزید پڑھیے

پیمان

منگل 10 نومبر 2020ء
ہارون الرشید
کبھی کوئی پیمان ہوا ہوگا۔ بسترِ مرگ پر فرزند نے پدرِ محترم سے پوچھا: کیا میں نے اپناوعدہ پورا کیا؟ جواب ملا: ہاں جانِ پدر، تم نے اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ جناب حسان بن ثابت ؓ کے قصائد، قصیدہ ء بردہ اور دردو سوز میں گندھے جامیؒ سے لے کر خواجہ مہر علی شاہؒ تک کیسے کیسے عالی دماغ اور کیسے کیسے قلب گداز سرکارﷺ کی بارگاہ میں جھکے ہیں۔ حرف و بیان کی ساری توانائی اور قلب کا سارا گداز نچوڑ دیا ہے لیکن اقبالؔ جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں تو لہجہ اور
مزید پڑھیے


دانائے راز

پیر 09 نومبر 2020ء
ہارون الرشید
1400بر س سے سرکارؐ کی مدح جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔ ابتلا کا زمانہ ابھی جاری تھا، جب یہ آیت نازل ہو ئی تھی۔تیرہ سو برس بعد امتی نے لکھا چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعتِ شانِ ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ دیکھے اس آدمی کا نام اقبالؔ تھا۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے نواح میں، عالمگیری مسجد کے سائے میں، شاعر مٹی اوڑھے سو رہا ہے مگر مرا نہیں، زندہ ہے اور ہمیشہ کے لیے زندہ۔اصل الاصول یہ ہے کہ ایک ذرہ ء خلوص
مزید پڑھیے


جنگل اداس ہے

بدھ 04 نومبر 2020ء
ہارون الرشید
مشکل ہے، ایسے آدمی کے بارے میں لکھنا مشکل۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مثال بنتے ہیں۔ جن سے اکتسابِ نور کیا جاتاہے۔آنکھ نم ہے، دل اداس۔ ہر اک مکاں کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے کچھ زخم ہیں، جو سہنے پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک ان کا رخصت ہونا ہے، جو قلب میں آباد ہوں۔ خورشید رضوی نے کہا تھا کب نکلتاہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں اور غالبؔ نے یہ کہا تھا وہ تجھے یاد کرے، جس نے بھلایا ہو کبھی ہم
مزید پڑھیے


1970ء کے وہ دن

منگل 03 نومبر 2020ء
ہارون الرشید
ہوش کے ناخن لیجیے صاحب، ہوش کے۔ ہیجان اورچیخ و پکار نہیں، تدبیر اور تحمل درکار ہے۔ ہوسِ اقتدار کے مارے لیڈروں کو لگام ڈالنا ہوگی۔ خود ان کے حامیوں کو بروئے کار آنا ہوگا۔ ایک طریق یہ بھی ہے کہ آج کے حالات کو 1970ء کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ تب تین بڑے فریق تھے۔ یحییٰ خان کی قیادت میں فوجی ہیئتِ حاکمہ، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو۔مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی تھے، نور الامین تھے اور ان کے ساتھی۔ مولوی فرید،بالواسطہ ان کے حلیف، چکمہ قبائل کے سردار تری دیو رائے۔ جنابِ غلام اعظم
مزید پڑھیے



پاگل پن

پیر 02 نومبر 2020ء
ہارون الرشید
دیوانے ہو رہے ہیں،تقریباًسب لیڈر دیوانے۔بہت شکست و ریخت ہوگی، بہت ٹوٹ پھوٹ۔ کئی دن سے اطلاع یہ ہے کہ نواز شریف کی بھارت نوازی سے جنرل عبد القادر ناخوش ہیں۔ اگرچہ؛ تصدیق نہ ہو سکی مگر تردید بھی نہیں۔ایک لیگی لیڈر نے کہا:وہ تو محض کوئٹہ کے جلسے میں ثناء اللہ زہری کو موقع نہ دینے پر ناراض ہیں۔ ثناء اللہ زہری کو اس لیے نہ بلایا جا سکا کہ اختر مینگل یہ گوارا نہ کرتے۔ سوال یہ ہے کہ خود جنرل صاحب کیوں بات نہیں کرتے۔ کیا یہ افتخار عارف کا سا معاملہ ہے؟ حرفِ تردید سے پڑ سکتے
مزید پڑھیے


دستک

جمعرات 29 اکتوبر 2020ء
ہارون الرشید
مکرر عرض ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ ممکن ہے، ابھی برسوں جیتا رہوں لیکن اب زندگی سے دل اچاٹ ہونے لگا ہے۔ اب ٹھنڈے سائے کی آرزو ہے۔اب دل مدینہ کو لپکتا ہے۔ کئی ماہ سے عزرائیل کے پروں کی پھر پھراہٹ سنائی دیتی ہے۔ اوّل اوّل تھوڑا سا خوف محسوس ہوا۔ پھر ایک دن چغتائی لیب کی گیارھویں منزل پر ڈاکٹر سہیل چغتائی کی خدمت میں حاضر ہونا تھا۔اچانک خیال ہوا، مالک کی دنیا اس جہان سے تو بہرحال اچھی ہوگی۔ اس کے دامانِ رحمت کی وسعتیں بے کنار ہیں۔ اس کا سایہ ٹھنڈا ہے۔ وہ ساری
مزید پڑھیے


’’تم غور کیوں نہیں کرتے‘‘

بدھ 28 اکتوبر 2020ء
ہارون الرشید
غورو فکر اور سوچ بچار کے سوا ادبار سے بچ نکلنے کا اور کوئی نسخہ نہیں۔ کبھی تھا، نہ کبھی ہو گا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ پوچھتی ہے’’تم غور کیوں نہیں کرتے‘‘ دروازہ کھولا، لپک میرے دوست آگے بڑھے۔ اکتفا مصافحے پر نہ کیا، گلے ملے۔ حیرت سے میں انہیں دیکھتا رہ گیا۔ پڑھے لکھے جہاں دیدہ آدمی۔ ابھی ابھی ڈاکٹر فیصل سلطان کو کہتے سنا: کورونا کی نئی لہر شروع ہو چکی۔ فرمایا: زیادہ تیزی سے جہاں کہیں مرض پھیل رہا ہے، مقامی انتظامیہ سے درخواست کریں گے کہ سختی سے لوگوں کو احتیاط پہ کاربند کریں۔ ایک لمحے
مزید پڑھیے


عجیب حکومت ہے، عجیب اپوزیشن

منگل 27 اکتوبر 2020ء
ہارون الرشید
ریاستِ مدینہ کی وزیرِ اعظم محترم بات کرتے ہیں، کیا انہیں ادراک ہے کہ ریاستِ مدینہ تھی کیا؟ اس کے مکینوں کا کردار اوراندازِ فکر کیا تھا؟ رات ڈھلنے لگی تو حضرت مولانا اویس نورانی کو تردید کا خیال آیا۔ان کے مطابق یہ بات کہ بلوچستان کو ایک آزاد ریاست ہونا چاہئیے، انہوں نے طنزیہ اور سوالیہ انداز میں کہی تھی۔ وہ پاکستان کی سا لمیت کے پرجوش حامی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ مزید یہ فرمایا کہ کوئی طاقت بلوچستان کو پاکستان سے الگ نہیں کر سکتی۔شب حضرت کے ارشاد پر گمان ہوا کہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ شاہ
مزید پڑھیے


صحرا میں اذان دے رہا ہوں

پیر 26 اکتوبر 2020ء
ہارون الرشید
ساری بات ترجیحات کی ہوتی ہے۔ ترجیحات ہی اگر درست نہ ہوں تو نتیجہ معلوم۔ سعدی کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے: اے حجازِ مقدس کے عازم جس راہ پہ تو گامزن ہے، حرمِ پاک نہیں، وہ ترکستان جاتاہے۔ میاں محمد نواز شریف، جنابِ شہباز شریف اور زرداری صاحب جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کرپشن کے مرتکب نہیں تو پنجابی،اردو اور فارسی کے تین محاورے یاد آتے ہیں۔ ’’چور نالے چتّر‘‘ چور اور دعویٰ فروش، چوری اور سینہ زوری اورفارسی کی مشہور کہاوت: چہ دلاور است دزدِ کہ بکف چراغ دارد۔ نقب زن کیسا دلیر ہے کہ ہتھیلی
مزید پڑھیے








اہم خبریں