معروف اینکر اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے برطرفی کے آرام دہ‘ پرآسائش دنوں میں میاں نوازشریف سے ایک طویل تر انٹرویو پے در پے نشستوں میں مکمل کیا تھا جو بعد میں ’’غدار کون؟‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا تھا۔ اتنی بہت سی ملاقاتوں اور نشستوں میں اگر آدمی ذہین ہوتو بھانپ ہی لیتا ہے کہ مخاطب و مجیب کی ذہنی فکری سطح کیا ہے؟ بھولا بھالا اور سادہ و معصوم ہے یا معصومیت و بھولپن فقط ایک ردا‘ ایک چادر ہے جس میں خود کو چھپا کر رکھا گیا ہے کہ دیکھنے والا اصلیت تک نہ پہنچ جائے۔ مصنف نے اپنے مشاہدات کا نچوڑ چند فقروں میں یوں پیش کیا ہے کہ عموماً لوگ میاں صاحب کو سیدھا سادہ جانتے اور سمجھتے ہیں مگر اتنی بہت سی ملاقاتوں میں میرا مشاہدہ برعکس ہے۔ وہ نہایت گہرے اور ہوشیار آدمی ہیں۔ ہرگز ویسے نہیں جیسے نظر آتے ہیں۔ اسی کتاب میں میاں شہبازشریف سے گفتگو بھی شامل ہے۔ برادر خورد نے دبے لفظوں میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ بھائی جان نے پرویز مشرف کی ناگہانی برطرفی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے مشورہ نہ کیا۔ اگر کیا ہوتا تو میں ہرگز انہیں اس کا مشورہ نہ دیتا۔ کہتے ہیں کایاں اور گہرا آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے رازوں میں کسی کو شریک نہ کرے۔ جب اہم معرکہ آرا فیصلے کرے تو کانوں کان اس کی خبر نہ ہونے دے لیکن یہ بھی تو ہے کہ خود کو عقل کل سمجھنے والا بھی ایک درجے پر احمق ہی ہوتا ہے۔ مشورے کی اہمیت کو جو نہ سمجھے اور نہ مانے اکثر اوقات اسے بھی گھاٹے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس آدمی کو کیا کہا جائے جو صحیح مشورہ غلط آدمی سے کرے اور جب بھی اسے پسند آئے غلط مشورہ ہی پسند آئے جو یہ نہ جانے کہ کہاں پیچھے ہٹ جانا چاہیے اور کس کی مخاصمت اور دشمنی پالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کب کہنا اور کب چپ ہو جانا چاہیے۔ کب ہار مان لینی چاہیے اور حملے کے لیے کتنا اور کب تک انتظار کرنا چاہیے۔ خود کو کس مورچے پر اور نمک خواروں کو کس محاذ کو گرم کرنے کی ہدایت دینی چاہیے۔ بھلا ایسے صاحب اختیار و اقتدار کو عقل مند اور کایاں کہا جا سکتا ہے جو نمک خواروں اور خوشامدیوں کو آگے اور آگے بڑھائے اور جب وہ اپنے ہی پھندے میں پھنس جائیں تو بلا اکراہ حکم دے کہ قربان ہو جائو۔ وقت آئے گا کہ قم باذن اللہ کہہ کر (نعوذ باللہ) ہم پھر تمہیں حیات نو عطا کردیں گے۔ مہا بلی اکبر کو اپنی جہالت کا علم و اعتراف نہ ہوتا تو بھلا وہ کیوں نو رتنوں کی کھیکھڑ پالتا۔ نو رتن یعنی نو ہیرے سب کے سب ایسے خالص ایسے چمکدار کہ زمانے کی آنکھیں چمک دمک سے ان کے خیرہ ہوتی تھیں۔ ان ہی کی مشاورت کی برکت سے سلطنت خوش حال ہوئی‘ وسیع و مستحکم ہوئی تو ہمارے میاں صاحب جن کا کروفر شاہانہ‘ مطلوب بھی جمہوری قبا میں شہنشاہیت کو زندہ کرنا اور خود کو امیرالمومنین کہلانا تھا مگر نصیب ان کے کبھی اچھے نہ تھے کہ قدرت نے ایک بار نہیں بار بار موقع دیا حالانکہ قدرت کا قانون ایک بار سے زائد غلطی اور وہ بھی ہولناک غلطی کی اجازت نہیں دیتا لیکن جانے کوئی بات ہے میاں صاحب میں کہ انہیں ایک سے زائد بار موقع دیا گیا۔ یہ کہنا تو کم علمی و نادانی ہو گی کہ کسی موقع سے انہوں نے سبق کیوں نہ سیکھا۔ ایک ہی جیسی غلطی کیوں ہر بار ان سے سرزد ہوتی ہے۔ مسئلہ بدعنوانی‘ لوٹ کھسوٹ ہوتی تو ان کے حریف محبوب آصف زرداری میدان سیاست میں یوں نہ دندناتے پھرتے اور یہ کہنے کی جرأت بھی نہ ہوتی کہ میاں صاحب ہی کے کہنے پر کہ چڑھ جا بیٹا سولی پر‘ رام بھلی کرے گا‘ میں سولی پر چڑھ گیا اور جو مڑ کے دیکھا تو میاں صاحب ان ہی کا پہلو گرم کر رہے تھے جن کے خلاف مجھے اکسایا تھا۔ دوش ہرگز میاں صاحب کا نہیں‘ جن وعدہ خلافیوں کا کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں کو بوجھ بجھا کر انہوں نے دشت سیاست میں فتوحات حاصل کیں‘ وہی ان کی سیاست کا چلن بن گیا۔ وعدہ وفا نہ کرنا‘ خوشامدیوں کو اکٹھے کرنا‘ ان ہی کو عہدے اور مناصب سے نوازنا‘ اپنی ہی ذات کو جملہ اختیار و طاقت کا مرکز بنانا اور کوئی راہ میں آئے‘ ان اختیار کل میں حصہ بٹانا چاہے‘ خواہ وہ کوئی مقدس ادارہ ہی ہو‘ غضبناک ہو کے اس پہ حملہ آور ہو جانا۔ آدمی بھی ایک سربستہ راز ہے‘ کاش خود کو اپنی آرزوئوں اور اپنی محدودات کو سمجھ پاتا۔ لکھا ہے ترجمان حقیقت نے کہیں کہ طاقت پہ انحصار کرنے والوں کو خود طاقت ہی تباہ کردیتی ہے۔ ہاں اس ملک میں ایسے مناظر نئے نہیں۔ کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مار کر کہنے والے تکبر سے کہ ’’میری کرسی مضبوط ہے‘‘ کیسے راتوں رات بے بسی و بے کسی کی حالت میں قضائے اجل کو سونپ دیئے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ‘ اس سے آگے حد ادب! اب ایک نئی‘ ایک انوکھی اصطلاح کو میاں صاحب مسلسل دہرائے جاتے ہیں کہ میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ شبہ کچھ ایسا پڑتا ہے کہ اپنی جلا وطنی کے زمانے میں اسٹار وار پہ بننے والی فلمیں انہوں نے بکثرت دیکھ رکھی ہیں‘ نہ بھی دیکھی ہوں تو کسی مشیر شہیر نے دوران کلام یہ اصطلاح استعمال کی ہو گی جو زمینی مخلوق اعظم کو راس آ گیا ہو گا اور یہ بھی یاد نہ رہا ہو گا کہ ان کی پیش رو وزیراعظم نے بھی ایک ایسی ہی مگر اک ذرا بہتر سیاسی اصطلاح کو رواج دیا تھا جب الیکشن میں بیلٹ بکس کو بھرنے کے فعل کو ’’فرشتوں‘‘ سے منسوب کیا تھا۔ ’’فرشتوں‘‘ اور خلائی مخلوق میں فرق فقط اس قدر ہے کہ پہلی اصطلاح مذہبی بیانیے کی اور دوسری سائنسی یعنی سائنس فکشن میں بالعموم مستعمل ہے۔ خلائی مخلوق اور فرشتے دونوں ہی ہیں تو مخلوق۔ مگر فرشتے ارادے اور آزادی سے محروم اور خلائی مخلوق کی بابت فکشن نگاروں نے بس اتنا ہی بتایا ہے کہ کسی اجنبی سیارے میں بسنے والی یہ مخلوق زمین پہ ناگہاں حملہ آور ہوتی ہے اور سب کچھ زیروزبر کر ڈالتی ہے جو مخلوق ایسی اور اتنی زور آور ہو اس سے بازاری زبان میں ’’پنگا‘‘ لینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب شہزادے صاحب پنگھوڑے میں لیٹے انگوٹھا چوستے تھے تو اسی خلائی مخلوق نے انہیں اغوا کیا تھا‘ پوسا پالا اور توانا کیا تھا۔ اب اسی خلائی مخلوق کو آنکھیں دکھانا‘ ماضی کو بھول کے اسی سے مقابلے کے لیے بیانات کی صندوقچی نکالنا‘ فسا نہ آزاد کے میاں خوجی کی طرح ’’لانا ذرا میری صندوقچی‘ ابھی خبر لیتا ہوں۔‘‘ بھائی وڑائچ صاحب! کیا یہی ہے وہ شخصیت کی گہرائی؟ تلوار دیکھو اور تلوار کی دھار دیکھو‘ وار کرنا نہ آئے تو اپنی ہی تلوار سے اپنے آپ کو زخمی کرنا کہاں کی اور کیسی دانش مندی ہے۔ عقل مند وہ ہے جو خلائی مخلوق پر حملہ آور ہونے سے پہلے زمینی حقائق کا ادراک کرے‘ نہ بھی کر سکے تو اپنی اوقات میں رہے۔ چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے کوئی اور بولے تو بولے چھلنی کیوں بولے جس میں ہوں سو چھید۔ شیشے کے گھر میں براجمان ہو کے سنگ باری کا شوق کہیں مہنگا نہ پڑ جائے۔ مصنوعی طاقت پیدا کرنے والے انجکشن لگا کے کوئی شہ زور بننا چاہے تو بن سکتا ہے مگر انجام کار اور نتیجہ آخر پہ نظر ڈال لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں مصیبت یہ پڑی ہے کہ ہزاروں کے مجمع کو دیکھ کر اپنی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کی بابت مغالطے میں پڑ کر خبط عظمت میں مبتلا ہو جانے والے کو سمجھایا جا سکتا تو ’’فخرایشیا‘‘ اور ’’قائد عوام‘‘ بھی سمجھ ہی جاتے لیکن انہیں بھی آخر تک یقین نہ آیا کہ وقت آخر آ پہنچا ہے۔ جس عوام اور جس مقبول عام پارٹی پر انہیں اندھا اعتماد تھا کہ وہ کال کوٹھری کی سلاخوں کے پیچھے سے انہیں نکال لے جائیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ تقریر انہیں کشاں کشاں جہاں تک پہنچا چکی تھی وہاں سے انہیں کون چھڑا سکتا تھا۔ تو جہاں پناہ! جان کی امان پائوں تو فقط اتنا عرض کروں کہ ہوا کے رخ کو پہچانیے اور اپنے لب و لہجے اور دھونکنی کی مانند حالت اشتعال میں چلنے والی سانسوں سے تندی باد کو نہ بڑھائیے کہ اب یہ مخالف سمت میں چل پڑی ہے جو ہوگا سو ہوگا۔ جتنا بنایا جتنا کمایا اسی پہ رب کا شکر ادا کیجئے کہ وہ بھی رسی کو ایک حد تک ہی دراز کرتا ہے۔ تصادم اور ٹکرائو کی جس راہ پہ آپ چل پڑے ہیں یہ نہ ملک کے لیے اچھا نہ آپ کے لیے بہتر۔ آپ نے اس لاوے کا اندازہ نہ کیا جو اندر ہی اندر پک رہا ہے تو چڑیاں کھیت چگ جائیں گی اور آپ کو پچھتاوے کا موقع بھی نہ ملے گا۔