پی ٹی آئی کا جلسہ جاری تھا، کوئی جلسے میں تھا یا میری طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا ، سب جلسے میں عمران خان کی آمد کے منتظرتھے ،کراچی میں جونہی بلاول کا خطاب ختم ہوا کپتان لاہور میں اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دکھائی دیے، عمران خان کی طرف سے پی ٹی آئی کا گیارہ نکاتی ایجنڈا پیش کرنے کا اعلان سامنے آ چکا تھا، میری بھی ان نکات میں دلچسپی تھی، جونہی کپتان نے بولنا شروع کیا، میرے کان کھڑے ہوگئے،،، مگر یہ کیا، پی ٹی آئی کے چیئرمین نے شوکت خانم ہسپتال کی کہانی سنانا شروع کر دی، بہت طویل بیانیے کے بعد نمل یونیورسٹی کے لئے جدوجہد اور چندہ جمع کرنے میں مشکلات کی داستان۔۔ اسی دوران ٹی وی سکرین پر ایک بوڑھی عورت کو روتے دیکھا، سوچا ،یہ بڑھیا کیوں رو رہی ہے، پھر یکے بعد دیگرے عمران کے جلسے میں شریک کئی اور عورتوں کو بھی دعائیں مانگتے اور آنسو پونچھتے ہوئے دیکھا، کوئی کاریگر اور منجھا ہوا کیمرہ مین تھا، جس نے ایسی لاچار اور بے کس خواتین کو فوکس کر لیا تھا، جلسے میں بہت شور تھا، بہت جوش تھا، نئے ترانوں کی بھی گونج تھی، مگر۔۔۔ ان آنسو بہاتی عورتوں کی خاموشی سب پر بھاری تھی، ان عورتوں نے ایک سیاسی جلسے میں خدائے بزرگ و برتر کے حضور ہاتھ کیوں پھیلا رکھے ہیں ؟ میں نے اپنے اس سوال کا جواب خود ہی ڈھونڈ لیا۔۔۔ وہ عورتیں اپنے بیمار بچوں کی صحت کی دعا مانگ رہی ہونگی، وہ اپنے بے روزگار بچوں کے لئے اللہ سے روزگار مانگ رہی ہونگی، اپنے کنبہ کیلئے اپنا گھر مانگ رہی ہونگی، محلے کے دکانداروں کا ادھار واپس کرنے کیلئے اللہ سے مدد مانگ رہی ہونگی۔۔ نہ جانے یہ دکھی عورتیں کس کس درد میں مبتلا ہوں گی ؟ میں عمران خان کو بھول چکا تھا، اس کے جلسے سے بھی باہر نکل آیا تھا۔۔ میں نے خود ہاتھ اٹھا لئے ان عورتوں کی آرزوؤں کی تکمیل کے لئے۔۔۔ حکمرانوں نے یہ مناظر تو دیکھے ہی نہیں ہونگے کیونکہ وہ تو صرف جلسے میں شریک لوگوں کی تعداد دیکھ رہے تھے۔ جلسہ ختم ہوا اور دانشوروں تجزیہ نگاروں کی ٹی وی سکرینوں پر آمد شروع ہوگئی جو اس بحث میں پڑے ہوئے تھے کہ عمران خان کا 30اکتوبر2011ء والا جلسہ بڑا تھا یا چار دن پہلے مینار پاکستان پر ہونے والا دوسرا جلسہ۔۔۔۔ پھر ایک بحث یہ شروع کرا دی گئی کہ سارے بندے پشاور سے آئے تھے، لاہوریے تو جلسے میں کوئی گیا ہی نہیں۔ یہ سب پاکستانی سیاست کا حصہ ہے جسے میرے سمیت سب لوگ ہمیشہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔۔ ایک واقعہ تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ والے جلسے کا۔۔ وہ ایک بڑا جلسہ تھا، اس میں بھی پورے پاکستان سے لوگ آئے تھے، عمران خان کے کنٹینر کے قریب ہی صحافیوں کیلئے کنٹینر لگایا گیا تھا، میں بھی وہاں موجود تھا، عمران خان کی تقریر ختم ہوتے ہی صحافیوں کے کنٹینر پر موجود ایک سینئر رپورٹر نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ اپنے اپنے موبائل بند کر لو،اب دفتروں سے فون آئیں گے، بیپرز کے لیے۔ اگر جلسے میں شریک لوگوں کی صحیح تعداد بتادی تو صاحب ناراض ہوجائیں گے اور اگر تعداد تھوڑی بتائی تو پی ٹی آئی والے خفا ہونگے۔ ایک بڑا دھماکہ پنجاب کے جیالے وزیر قانون نے عمران خان کے حالیہ جلسے پر میڈیا کے سامنے تبصرہ فرمایا۔۔۔۔ ایک شرمناک تبصرہ۔۔ جسے کوئی شریف آدمی کر سکتا ہے نہ سن سکتا ہے۔ ’’ٹھمکے بتا رہے تھے کہ وہ عورتیں کون تھیں،،۔۔۔۔ یہ تبصرہ نہیں تھا پاکستان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو گالی تھی۔۔اس پر ڈھٹائی یہ کہ انہوں نے اپنی بدتمیزی پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ ان کا یہ انکار میں نے مجیب الرحمان شامی کے ٹی وی پروگرام میں میں بھی سنا، اس پروگرام کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا،،، شامی صاحب کو رانا ثناء اللہ سے سوال کرنے کی بجائے اسے اپنے پروگرام میں بلوا کر سرزنش کرنی چاہئے تھی، ان کی بزرگی کا یہی تقاضہ تھا ایک سوال پاکستان کے ڈھیٹ حکمرانوں سے۔۔۔ وزیر اعلی پنجاب جناب شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کی خطا پر معافی مانگی۔۔۔ شکریہ خادم اعلی ، مگر آپ کی جانب سے معافی نہیں وزیر قانون کو سزا سنائے جانے کی توقع تھی۔ ایک معافی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے بھی مانگی۔۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کا تعلق کسی بھی گھرانے سے ہو، قابل احترام ہیں۔۔۔۔ جناب سپیکر کسی بھی گھرانے سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے سب سے زیادہ نا پسندیدگی کا اظہار لفظ اگر، مگر پر کیا تھا۔ آپ کا یہ فقرہ آپ کو رانا ثناء اللہ کا ساتھی قرار دے رہا ہے۔۔ یہ سیاست کا نہیں ، اخلاقیات کا سوال تھا، آپ کے ریمارکس قوم قبول نہیں کرے گی، یہ 2018ء ہے، آپ کس کو لولی پاپ دے رہے ہیں، آپ نے فرمایا، باقی لوگ بھی غلطیوں کی معافی مانگیں۔اس کا مطلب بھی قوم کی سمجھ میں نہیں آیا حضور۔ حکمرانو : عورت کو گالی کیوں دیتے ہو، تمہیں تو عورت کی خودی کا نگہبان ہونا چاہئیے۔۔لیکن تم تو وہ لوگ ہو جو پارلیمنٹ میں آنے کے بعد سب سے پہلے پالیمنٹ لاجز میں نشاط کی محفلیں سجاتے ہو، مجبور عورتوں کو نچواتے ہو، اپنے عیاش ساتھیوں کے ساتھ محفلیں سجاتے ہو، پارلیمنٹ لاجز جو تمہیں رہائش کے لئے ملتے ہیں، تم انہیں میخانوں میں بدل دیتے ہو۔ حکمرانو: تم ووٹ کی عزت مانگتے ہو، مگر اس ملک کی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں نیلام کرتے ہو، تار تار کرتے ہو، تمیں خود شرم آتی ہے نہ کوئی حیا،جس ملک کے حکمران عیاش ہوں وہاں کی رعیت کیسے سدھر سکتی ہے؟ اس ملک میں روزانہ عزت کے نام پر عورتوں کے جو قتل ہوتے ہیں ان کے ذمے دار بھی تم حکمران ہو۔ عورت کب تک صبر کرے گی؟ عورت کب تک جبر برداشت کرے گی، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، وزیر قانون نے عورت کو گالی دے کر عورت کو جگا دیا ہے، یہ بات یونہی ختم نہیں ہوگی۔ ان ریمارکس کا مداوا معافیاں نہیں، میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج بیدار ہوجانے والی عورتیں میدان میں آئیں گی اور تمہارے منہ نوچیں گی،عورت جب مزاہمت پر اتر آئے تو اسے کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوک سکتا ہے،عورت کی بیداری کی تحریک قوم کی بیداری کی تحریک بنے گی اور عورت کو گالی دینے والے حکمرانوں کو ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کر دے گی، عورت جب جاگتی ہے تو پورا معاشرہ بیدار ہوجاتا ہے بالکل اس ماں کی طرح جس کی ایک آواز پر اس کے بچے بیدار ہو جاتے ہیں، حکمرانو: تمہاری وحشتوں کو،تمہاری حیوانیت کو نیند کیوں نہیں آتی؟ عورتیں سہمے سہمے سے بچوں کو گود میں لے کر چوراہوں پر بھیک کیوں مانگتی ہیں؟ یہ وہ ملک ہے جہاں عورتوں کو گھر چلانے کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں عورت کو محض ایک جنس سمجھا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭ اے اللہ نواز شریف کی آنکھوں سے نادیدہ قوتوں کا خوف اتار دے، یا اللہ نواز شریف کی آنکھوں سے نادیدہ قوتوں کا عکس مٹا دے، اے خدا وندا۔۔ نواز شریف نے دس دنوں میں تیرہ جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اللہ نواز شریف کو ہزارہ کا دورہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا کر۔۔ سب مل کر بولو۔۔(آمین)