یورپ کی دو بڑی اقوام مادی ترقی کو اخلاقیات کے دائر ے میں لانے کے لیے اس وقت مسابقت کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ اقتصادی طور پر ترقی یافتہ جرمنی میں ایسی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے جو اپنے مزاج اوررویوں میںسر سے لیکر پاوں تک ماحول دوست ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں واضح کمی اور گرین ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے کاروباری اداروں کے ساتھ شراکت داری کے معاہدے ہورہے ہیں۔ ایسے میں فرانس بھی کسی سے پیچھے رہنے والا نہیں۔ حکومت عوام سے سادہ طرز زندگی اختیار کرنے پر زور دے رہی ہے۔گرین ٹراسپورٹ اور پیدل یا پھر سائیکل کے استعمال کا کہہ رہی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی پلاسٹک پیکنگ پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔ مطلب، فطرت سے مطابقت۔ یورپ اگرچہ نسلی طور پر ایک متوبع براعظم ہے لیکن حیرانگی کی حد تک یہاں بسنے والی اقوام کی مَت ایک طرح سے کام کرتی ہے۔صدیوں تاریک دور میں رہنے کے بعد سترہویں اور اٹھارویں صدی میں اس خطے میں زندگی کی رمق آئی،احترام ِ آدمیت کے اصول پرحریت ِ فکر کی تحریک چلی اور پورے خطے کو بدل کر رکھ دیا۔ کلیسا اور شہنشاہیت کی راہیں جدا ہوئیں تو مادی ترقی کے راستے کھلے۔ سرمایہ داری نظام کی سرپرستی کا مرکز یہی خطہ بنا تو جمہوریت کے ذریعے سرمایہ داروں کی لالچ پر گرہ بھی یہیں لگائی گئی۔ مادی ترقی کی مسابقت میں اقوام ِیورپ نئی منڈیوں کی تلاشں میں نکلیں توجدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر پوری دنیا زیر نگیں کرلی۔ اسی جمہوریت کو ڈھال بنا کر یورپ نے استعمار کی دیواریں اپنے ہاتھوں سے ڈھائیں۔یورپ نے فیصلہ کیا کہ جنگ کو خطے سے باہر رکھے گا تو اس کے پیچھے یورپ کا جمہوری اقدار پرکامل یقین تھا۔ یورپ نے اگلا فیصلہ مارکیٹ اور سیاست کی علیٰحدگی کا کیا توسرد جنگ قصہ پارینہ بن گئی۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ دیوار برلن گری ، یورپ متحد ہوگیا۔ طاقت کے نشے میں چور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا۔ اب جبکہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکہ دونوں بحرانی کیفیت میں ہیں۔ یورپ مادی ترقی کی فطرت کے ساتھ مطابقت کے فلسفے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اسے ہر گز پرواہ نہیں کہ امریکہ کی سوچ کیا ہے، روس کیا کر رہا ہے یا پھر چین کس سمت میں جا رہا ہے۔یورپ تہذیبی پیرائے میں سوچ رہا ہے تو عالمی سیاست میں اخلاقی اقدار کا تذکرہ بہر حال رہے گا۔ وہی مَت والی بات کہ یورپ ہم قدم اور ہم آواز رہے گا اس یقین کے ساتھ کہ اتحاد میں برکت ہے۔ اصل میں یورپ کی ذہن سازی کی گئی ہے۔ فکری تحریکوں کی ایک لمبی داستان ہے اور اس کے نقوش خطے کی سیاست پر واضح ہیں۔ سیاست کو چرچ اور پھر سرمایہ داری کے چنگل سے آزاد کرانا سہل نہیں تھا۔ عظمت ِ انساں کا بیانیہ نہایت تندہی سے بنایا گیا اور اسے جمہوری قدروں کی مالا میں پرویا گیا۔ انقلاب فرانس سے شروع ہونے والی کہانی مشترکہ جمہوری اقدار پر یورپ کے اتفاق پر منتج ہوئی ہے۔ عالمی سیاسی نظام کا نیا فلسفہ سامنے لایا ہے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری احترام آدمیت کا دفاع ہے نہ کہ سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ۔ سرحدوں کو تجارت کے لیے کھلا رکھیں تو نہ عالمی ماحول کشیدہ ہوگا، نہ اسلحے کی دوڑ ہوگی اور نہ جنگیں۔ آج کا یورپ دنیا کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے لیے ایک مثال بننا چاہتا ہے۔ یورپی یونین کو ہی لے لیں۔ سرحدیں کھلی ہیں ، افراد اور مال تجارت کی آمدو رفت میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ حکومتیں جرائم ، مالی بحران اور آفات کا مل جل کر مقابلہ کرتی ہیں۔ کرنسی تک ایک ہوگئی ہے۔ اقتدارِ اعلٰی کا ایک نیا تصور سامنے آیا ہے کہ خطے کے ممالک اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مثالی تعاون کر ر ہے ہیں۔ سوویت یونین کے چنگل سے نکلنے والی مشرقی یورپ کی کتنی ریاستیں یورپی یونین کا حصہ بنی ہیں۔ باقی ماندہ ریاستوں میں یورپی یونین سے میل کی تڑپ طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں کسی نے یورپ کی تقلید کی ہے تو وہ جنوب مشرقی ایشیا ہے جو آسیان کے جھنڈے تلے جمع ہوا ہے۔ افریقہ بھی اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس و چین کی سربراہی میں قائم شنگھائی تعاون تنظیم کا تصورِ اقتدارِ اعلیٰ اگرچہ یورپی یونین سے مختلف ہے لیکن ترقی کے ثمرات میں شرکت کا تصور یکساں ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں علاقائی تنظیموں کی ناکامی کے بعد ان خطوں کے ممالک تیزی سے شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بن رہے ہیں۔ یورپ نہ تو امریکہ ، چین اور روس جیسی ریاستوں جیسا بننا چاہتا ہے اور نہ ہی ان سے مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ یہ خطہ نہ تو اسلحے کی دوڑ میں جانا چاہتا ہے اور نہ ہی امریکہ کی سرپرستی میں پنپنے والے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ساتھ ہی ، یورپ اپنے نظریات اور قدروں پر سمجھوتا بھی نہیں کرنا چاہتا۔ مذہب اور جنگی جنون سے گریز کی روش بھی برقرار ہے۔ یورپ فطرت کی باہوں میں پناہ لینے جارہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کی مت میں یہی بات آئی ہے کہ سادگی کا راستہ اپنا یا جائے۔ ماحولیاتی آلودگی کم کی جائے اور قدرتی وسائل کا کفایت شعاری سے استعمال کیا جائے۔ یورپ جان چکا ہے کہ اس کا دشمن کون ہے اور یہ کہ اس دشمن کو اسلحے اور بارود سے نہیں بلکہ فطرت کے ساتھ قربت سے ہرا یا جاسکتا ہے۔ یوں یورپ فکری طور پر اٹھارویں صدی کے سائنسی انقلاب کی طرف لوٹ گیا ہے اس عزم کے ساتھ کہ مادی ترقی کو سرمایہ داروں کی لالچ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ احترامِ آدمیت کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ اسے اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کے تابع کیا جائے ۔ سیاست کو مذہب سے بے شک علیٰحدہ کیا جاسکتا ہے لیکن اخلاقیات سے نہیں۔