نوازشریف کو یہ احساس ضرور ہے کہ جب تک شطرنج کی بساط کے تمام مہرے ان کی منشا کے مطابق اپنی پوزیشنوں پر نہیں ہوں گے وہ لندن کے مورچے میں بیٹھ کر اپنی سیاسی جنگ لڑیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف کی سیاست اس وقت ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے گرد گھوم رہی ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر اپنی راہ کی بے شمار رکاوٹوں کو عبور کرلیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کافی فاصلے پر دیار غیر میں بیٹھ کر جو تیر چلائے اور وقت کی کروٹوں اور حالات کے تیوروں نے رفتہ رفتہ ان کی جرأتمند خطائوں کو بھی معاف کروا دیا۔ اب جو قانونی پیچیدگیاں اور موشگافیاں ان کی اہلیت کی راہ میں روڑے بن رہی ہے ایسا لگتا ہے وہ بھی ٹہنی چلی جائیں گی لیکن نوازشریف کے لیے اس سے بڑا سوال یہ زیر نظر ہے کہ جو سیاسی اکھاڑا انتخابات کی صورت میں آئندہ چند ماہ میں سجنے کی توقع کی جا رہی ہے اس میں ان کی پیشگی شرائط پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے۔ ایسا میدان جسے وہ عام اصطلاح میں لیول پلیئنگ فیلڈ کہہ رہے ہیں۔ میں نے ایک بار نوابزادہ نصراللہ خان سے دریافت کیا تھا کہ سیاست میں لوگوں کو اپنے لیڈروں کی سب سے اچھی بات کیا لگتی ہے۔ کراچی میں اپنے دیرینہ ساتھی مشتاق مرزا کے گھر میں پلنگ پر نیم دراز گم چلمن کے حقے کی ٹونٹی سے بہت طویل کش لیتے ہوئے کہا تھا‘ کارکردگی اور مزاحمت۔ بزرگ سیاستدان نے کہا تھا کہ ڈیلیوری اپنے منہ سے بولتی ہے اور لیڈر کی عزت و تکریم کا سبب بنتی ہے۔ مزاحمت عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ عمران اور ان کے حمایتی یہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کی جماعت کا کوئی ایسا بازو نہیں رہا جسے مروڑا نہ گیا ہو لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اناکے گھوڑے پر سوار عمران خان پر آسان سی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ انہوں نے اپنے گرد جن لوگوں کا جمگٹھاکیا تھا یہ انقلابی مجاہد آزمائش کے ایک معمولی سے جھٹکے میں آنسوئوں سے رو پڑے ہیں۔ عمران خان کبھی بھی اچھے مردم شناس نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے گرد ایسے لوگ جمع کئے جن کا کوئی پیندہ نہیں تھا ۔وہ ایسے نمونے اکٹھے کر کے ریاست مدینہ بنانے چل پڑے تھے۔ اعظم خان کی گواہی نے انا کے تخت پر براجمان عمران خان کو یہ احساس ضرور دلایا ہوگا کہ وہ ایک ایسے شخص کو سیاہ سفید کا مالک بنا بیٹھے تھے جس نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف وہی کردار ادا کیا جو ایف ایس ایف کے سربراہ نے مسعود محمود نے قصوری قتل کیس میں وعدہ مواف گواہ بن کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ادا کیا تھا ۔مجھے آج جسٹس دراب پٹل یاد آ رہے ہیں جنہوں نے میریٹ ہوٹل کے بالمقابل فرنٹیئر پارک کے بائیں اور سر عبداللہ ہارون کی قدیم رہائش گاہ کے پچھلی جانب ایک خستہ حال مکان کے ڈرائنگ روم میں ایک انٹرویو کے دوران مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے 282 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نو ٹ میںسب سے اہم بات یہی لکھی تھی کہ مسعود محمود جیسے شخص کی گواہی کی بنیاد پر بھٹو کو کسی قیمت پر پھانسی نہیں دی جا سکتی اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب فیصلہ اختلافی ہو تو پھر انتہائی سزا سزائے موت پر عملدرآمد کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ اب عمران خان یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ جس شخص کی خاطر انہوں نے جہانگیر ترین جیسے ساتھی سے آنکھیں بدلیں وہ ایک قانونی پھندہ لے کر ان کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر عاصم آصف علی زرداری کے خلاف اور اسحاق ڈار اپنے محسن نوازشریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فواد حسن فواد قابل تحسین ہے جس نے ڈیڑھ سال تک قید تنہائی کی سعوبتیں برداشت کرلیں لیکن پائوں سے مٹی نہیں سرکنے دی۔ عامر کیانی‘ علی زیدی‘ عمران اسماعیل‘ اسد عمر جیسے لوگوں کو چن کر خود اپنی پارٹی اور نعروں کو داغدارکیا۔ ایک سوال یہاں یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب سائفر کے حوالے سے آڈیوز کا ریکارڈ موجود تھا تو اعظم خان کو اس وقت کیوں سلطانی گواہ نہیں بنایا گیا۔ عمران خان کی جماعت ایک ایسے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے جب اس کے لیے انتخابات کی صورت میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کرنا بتدریج مشکل ہوتا جائے گا۔میں جب عمران خان کی شخصیت پر نظر ڈالتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت کا ہر رنگ اور ہر دور میں ہر پہلو پیاز کی پرت کی طرح ایک دوسرے میں چھپا ہوا ہے۔ آج سچ مچ ہم تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں ۔یہ مان لینا چاہیے قومی سفر کے 76 سال گزر جانے کے بعد ہم شاید مایوسیوں اور اپنی ناکامیوں کا جو سازوسامان سمیٹ رہے ہیں تاریخ کا یہ سفر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہمارے پاس اب بھی یہ آپشن ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ آنے والا وقت اپنے دامن میں بے حساب امکانات لیے ہمارے سامنے آ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ 21 ویں صدی میں شاید ہم اپنی ایک اجلی اور روشن داستان لکھنے کے قابل ہو جائیں گے جب آپ گزری صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ دنیا کے لیے بیسویں صدی بہت ہی ظالم صدی تھی کشت و خون ک صدی تھی۔ انسان پر ہر قسم کی جنگ مسلط کی گئی۔ لاکھوں انسان جنگ کا ایندھن بن گئے لیکن پھر یہ خون رنگ لایا اور اس سے سامراج کا تسلط ختم ہوا۔ دنیا کے تمام ملکوں کو آزادی بھی اسی صدی میں نصیب ہوئی۔ لاکھوں انسانوں کے خون سے پیدا ہونے والی اس صبح کی روشنی جنوبی ایشیا کے انسانوں کا مقدر بنی لیکن 21 ویں صدی کا ربع حصہ گزرنے کو ہے لیکن ہمارا اجالا داغ داغ ہے۔ ہماری سحر شب گزیدہ ہے۔ ہماری صبح پر رات اب بھی چھائی ہوئی ہے۔ ہمارے اجالے میں اندھیرا اب بھی ملا ہے۔ ہمیں اگر آج آگے بڑھنا ہے تو پھر سیاسی استحکام چاہیے‘ ہمیں معاشی Stability چاہیے۔ حکومتیں تبدیل کرنے سے کام نہیں بن رہا۔ حالات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب پاکستان Administraion اور Manager کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی جگہ تجویزوں کی ضرورت ہے۔ سمجھ لیں کہ اگر یہ ضرورتیں سیاسی پارٹیاں پوری نہیں کریں گی تو دوسرے ادارے کریں گے۔ پھر ملک پر غلبہ بھی انہی اداروں کا ہوگا۔ فیصلہ کن حیثیت بھی ان اداروں کی ہو گی اب بھی فیصلے کا وقت ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اب نئے دور کے نئے تقاضوں کیلئے نئی سوچ اور نئی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ خدارا اب بھی سنبھل جائیں۔