آج سارا ہندوستان 71 واں یوم جمہوریہ منارہا ہے، لیکن آزاد ہندوستان میں آج بھی عوام آزادی کی مانگ کی صدائیں لگارہے ہیں، تاریخ ہند نے آزادی سے پہلے جدوجہد آزادی میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ کئی مرتبہ جنگ آزادی کے دوران ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ انگریزوں کو اس ملک سے مار بھگانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857 ء جس میں مجاہدین آزادی کو ’’جلیان والا باغ‘‘ میں بندوق کی گولیوں سے انگریز فوج نے سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے شہید کردیا تھا۔سینکڑوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا جس میں 400 سے زیادہ مسلمان علمائے کرام بھی تھے۔ اس کے بعد کا ماحول کچھ عرصہ تک سہما ہوا تھا۔ لیکن فوری بعد میں ریشمی رومال، خلافت تحریک، ستیہ گرہ ، بھارت چھوڑ دو جیسے ولولہ انگیز احتجاجوں نے ہندوستان کی قسمت ہی بدل دی اور بالآخر 15 اگسٹ 1947 ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ یہ سب جانتے ہیں۔ پھر 26 جنوری 1950 ء میں ہند کا دستور بابا صاحب امبیڈکر نے بنایا۔ ہندوستان کے عوامی دستور کی ابتداء We people of indiaسے شروع ہوتی ہے اور یہ کہ اور ہندوستان کی جڑیں Secularism اشتراکیت کی بنیاد پر رکھی گئی۔ تمام ہندوستانیوں کو مذہبی آزادی، اور 21 اور 14 Article کے تحت بنیادی حق دیا گیا۔ افسوس کہ جمہوری ہندوستان کے 70 سال گزرنے کے بعد بانیان آزاد ہندوستان، دوسری بڑی اقلیت مسلمانوں کو جن کے رگ و ریشے میں ملک کی محبت ہے جنھوں نے تقریباً ایک ہزار سال اس ملک پر حکومت کی، اس کو سونے کی چڑیا بنایا، لال قلعہ تعمیر کیا ‘جہاں سے تم ترنگا، ہر سال 2 مرتبہ لہراتے ہو، ترنگا خود مسلمانوں نے بنایا‘ تاج محل بنایا، جو دنیا کے عجائب میں سے ہے قطب مینار بنایا، پارلیمنٹ ہاوسز بنائے جہاں سے تم دستور کی بنیاد پر حکومت چلاتے ہو، 1965 ء کی جنگ میں نظام دکن نے 7 ٹن سونا کا عظیم عطیہ دیا جس کے بل بوتے پر تم چین سے جنگ لڑکر اپنی آزادی بچاسکے ورنہ چین ہم پر قابض ہوجاتا۔ پھر ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے۔ ایسے کئی کارنامے حالیہ دور کے دشمنی حربوں کا مقابلہ کرنے اپنی آزادی بچائے رکھنے میں ڈاکٹرعبدالکلام کی بدولت ہم عظیم سوپر پاور ممالک میں شمار کرلئے گئے، ایسی مسلم اقلیت جو ملک کو آزادی بچائے رکھنے، دیش کو سنبھال کر رکھنے کے لئے تقسیم ملک میں بھارت میں رہنے کو ترجیح دے‘ آج اپنی شہریت ship Citizen بتانے، کے لئے صداقت نامہ (جائے پیدائش نہ ہماری بلکہ ہمارے ماں باپ کی بھی)کے ذریعہ ثابت کرنے کو کہا جارہا ہے۔ جو بلاشبہ 40 فیصدمسلمانوںکے لئے ناممکنات میں سے ہے۔ ایک سروے (RTI) کے مطابق شہر حیدرآباد میں 28 فیصد عوام کے پاس پیدائشی صداقت نامے موجود نہیں ہیں۔ مختصر یہ کہ اکثریت کے نشے میں حکومت ہند مسلمانوں پر مسلسل دبائو بڑھانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ سب سے پہلے شریعت میں مداخلت، تین طلاق کا بل لانا، مسلم نوجوانوں کے ازدواجی خلفشار کو Criminal قرار دے کر 3 سال کی قید کا قانون، کشمیر سے 370 کی حیثیت برخاست کرنا، بابری مسجد کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر دینا (جوکہ فاش غلطی ہے) پر Review Petition کو کالعدم کرنا، ان تمام حالات میں سے چند ہیں ‘جن کی وجہ سے صرف مسلم اقلیت کو سڑکوں پرآنا پڑا ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج میں غم و غصے کے تقریباً 40 دن ہونے کو ہیں۔ ہزاروں خواتین دن رات، کھلے آسمان تلے، معصوم نونہالوں کے ساتھ ہیں۔ وہ دراصل حکومت ہند سے پرامن احتجاج سے کرتی ہیں کہ یہ مٹی بھارت کی جس میں ہمارا خون ہے ہم یہیں کے متوطن ہیں، یہیں جئیں گے ، یہیں مریں گے، چاہے تم گولیوں کی بارش ہمارے سینوں پر کردو، تمہاری گولیاں کم پڑجائیں گی، ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے۔ تمہاری جیلیں بھر جائیں گی ، ہم آزادی کی لڑائی لڑتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے حسب حال ہے کہ: یہ اشعار بھی گونج رہے ہیں۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا ہندوستان کے ان ناگہانی حالات میں جو دن بدن سنگین بنتے جارہے ہیں، ہر روز ایک نئی آزمائش سے مسلمانوں کو گزرنا ہورہا ہے، سنگھی، فسطائی طاقتیں دستور ہند کے ماورا کام کررہی ہیں۔ اس طرح کے قوانین کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ پر روک لگانا چاہتی ہیں جو احکام خداوندی سے ٹکرائو ہے جس کی تدابیر کے سامنے یہ مکڑی کے جالے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں ہمیں 2 اہم کام کرنا ہے۔ ’’تعلق مع اللہ۔ دعوۃالی اللہ‘ رب العالمین سے ہمارا رشتہ، تعلق جو ٹوٹا ہے اسے پھر سے قائم کرنا ہے۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ ظلم و زبردستی کے اس حربے کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور برادران وطن جو ہمارے حقیقی خونی رشتہ دار ہیں ان سے تعلق بڑھاتے ہوئے ان کو ہم خیال بناکر حقیقی بھگوا ایجنڈے کو ناکام بنائیں اور ان کو دعوت دین حق، پیغام حق بتائیں۔تاریخ اسلام گواہ ہے جب کبھی اْمت مسلمہ نازک حالات سے گزری ہے تمام تدابیر جب ناکام ہوگئیں تو دعوت دین حق کی محنت نے اْمت کو سنبھالا ہے۔ ورنہ اس باطل طاقت کا ہم مدد الٰہی حاصل کرتے ہوئے مقابلہ نہیں کریں گے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اور وہ مزید دشوار کن حالات میں پھنس جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، اور مشن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جمے رہنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔ آمین۔ (روزنامہ سیاست، نئی دہلی)