عمران خاں اور ’’ ان‘‘ کے درمیان جب سے طلاق کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے دوجماعتی سیاست کی یادیں تازہ ہونے لگی ہیں۔جہانگیر ترین اور علیم خان اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں مگر اتنے بھی نہیں۔سیاسی ٹینڈرز کے لئے کوالیفائی کر جانے کے باوجود…چائے اور ہونٹوں کے درمیان فاصلہ لڑکھڑا رہا ہے، اس سے کچھ ملتا جلتا حال چوہدری سرور اور چوہدری شجاعت کا ہے۔پرویز الٰہی مان گئے ہیں مگر تھوڑا انتظار کریں۔مونس فیکٹر کے دھیمے پڑنے کا۔اصل کھیل شروع ہو گیا ہے، درمیان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتی ایوان سے عمران اور ان کی پارٹی آئوٹ ہو گئے۔روایتی حریف۔حلیف بنے بیٹھے تھے نظر آ رہا تھا یہ آپس کی محبت نہیں۔مشترک دشمن کا بغض ہے وقت کی یہ مجبوری ہے، محبت بہت ضروری ہے مگر اب وقت گزر چکا ہے ،میان سے تلواریں باہر آ چکی۔گزشتہ ایک سال چند ماہ میں بلاول اور حنا گلوبل لابنگ کرتے رہے۔شہباز شریف۔نیویں نیویں ہو کر اپنے آپ کو نیب کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرواتے رہے۔بڑے بھائی کی آمد کی راہ ہموار کرتے رہے۔مریم اپنے چارم سے سیاسی سرمایے کو جیتنے کے لئے خان کا متبادل نظر آنے کی کوششوں میں مصروف رہیں۔شہباز شریف سنگل رن لیتے رہے کہ اتحادیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔مگر بڑے بھائی اور مریم کے کہنے پر مفتاح کو نکالا اور ڈار کو لائے تو بزنس کمیونٹی کے دل میں گرہ سی پڑ گئی۔ڈار IMFکے آگے اکڑتے رہے اور پھر قدموں میں گر گئے۔ان کا امیج میڈیا اور بزنس حلقوں میں تباہ و برباد ہو گیا اور مفتاح اور شاہد خاقان رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے کس کے حق میں اور کس کے خلاف یہ وقت بتائے گا۔ دوبئی خبروں میں ہے جمہوری تالیوں اور سیاسی مسکراہٹوں سے دور پاور ۔۔کا مکروہ اور بدصورت کھیل اپنے کلائمکس پر ہے اس کا عکس اگلے عام انتخاب میں نظر آئے گا۔کل کے دوست شطرنج کی بساط پر آمنے سامنے اپنے اپنے مہرے چل رہے ہیں۔یاد رہے جب جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی نے 1981ء میں میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا تو خیال تھا کہ وہ پنجاب کی اربن سیاست میں بزنس کلاس اور تاجر طبقے کو جیت کر ایک اینٹی فیوڈل سیاست کی بنیاد رکھیں گے۔تب سے اب تک انہیں اپر اور مڈل کلاس میں ایک خاص طرح کی حمایت میسر رہی ہے۔جنرل باجوہ اور عمران خاں اس کلاس میں نواز شریف کی سپورٹ کو کچھ زیادہ damageنہ کر سکے۔پھر شہباز شریف اور ان کے اتحادی حکومت میں آ گئے۔مفتاح کراچی کی بزنس کلاس سے خاصی قربت رکھتے ہیں۔کراچی کی بزنس کلاس اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہے آصف زرداری کے لئے ان سے رومانس کرنا کچھ زیادہ مشکل نہ تھا۔اصل مسئلہ تھا لاہور کے صنعت کار اور تاجر طبقہ۔یہ پاکستان کے چند طاقتور ترین پریشر گروپس میں سے ایک ہے۔آصف زرداری نے پنجاب کی ایک اہم میڈیا شخصیت کو کہا کہ وہ ان کا رابطہ لاہور کی بزنس کمیونٹی سے کرا دیں۔پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ نمبرون صرف اور صرف ہے۔آصف زرداری لاہور آئے۔طاقتور ترین پریشر گروپ سے باتیں ہوئی عہد اور پیمان بات بن گئی۔اب جبکہ نگران وزیر اعظم کا ڈول لگا ہے تو تین نام ابھر کر سامنے آ گئے۔مسلم لیگ ن نے نجم سیٹھی کا نام آگے بڑھا۔آصف زرداری نے جو نام آگے بڑھایا۔وہ گوہراعجاز۔پاکستان کی بزنس کلاس کا پیش کردہ نام۔تیسرا نام طاقتور حلقوں سے قربت کی بنا پر سامنے آیا ہے۔محسن بیگ صاحب یہ وہ محسن بیگ جن پر عمران دور میں ایف آئی اے نے تشدد کیا تھا۔ان کا ایک ٹی وی سکرینوں پر بڑا پاپولر بھی ہوا۔’’عمران تُو تو گیا‘‘۔ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ صاحب زادہ احمد محمود اور قمر الزماں کائرہ کے لئے اور ندیم افضل چن۔اس وقت ایک جانب چوہدری شجاعت پرویز الٰہی کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔دوسری جانب چوہدری سرور مسلم لیگ ق اور حکمرانوں کے درمیان دوریاں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جہانگیر ترین اور علیم خان کا تمام تر انحصار الیکٹ ایبلز کے گروپ پر ہے۔وہ پنجاب میں مسلم لیگ ن سے ہاتھ ملا کر مرکز اور پنجاب میں اپنا حصہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔میاں نواز شریف مرکز میں وزیر اعظم بن کر پنجاب میں مریم کو چیف منسٹر بنانا چاہتے ہیں۔کہیں ایک اور بھی خبر گردش کر رہی ہے کہ محسن نقوی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کسی اور کے لئے خالی کر رہے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کر چکے۔اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے لئے کس کو نگران وزیر اعلیٰ ٹپ کرتی ہے۔خاصا اہم ہو گا۔یہ فیصلہ اور فیکٹر۔ محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے اس ساری ہنگام آرائی میں پس پردہ کچھ قوتیں کچھ ادارے کچھ شخصیات اپنی ٹیم کے ساتھ اس سارے انتشار کو undoneکرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو ان کے سابق لوگ کر گئے ،پچھلے دنوں ایک اہم شخصیت اور میاں نواز شریف ان مذاکرات کا حصہ تھے، جن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کو اس معاشی صورتحال سے نکالنے کے لئے کامیاب بات چیت کا ڈول ڈالا گیا۔اس وقت بنیادی مسئلہ معاشی استحکام ہے۔ٹاپ لیڈر شپ کا خیال ہے کہ معاشی عدم استحکام نے جنم لیا۔سیاسی عزم استحکام سے۔سیاسی انتشار کس نے پھیلایا؟ کیوں پھیلایا ،لمبی بات ہے آئی ایم ایف کا 3بلین اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔اصل بات ہے بے ترتیب گھر کو ترتیب میں لانا اب جو کچھ طے پا رہا ہے، منفی عمران فیکٹر ہے۔کیسا عروج؟ کیسا زوال؟ مگر کچھ پنڈتوں کو شاید اب بھی بات سمجھ میں دیر لگے گی۔درست ہے کہ اگر عوام کو الیکشن کے بعد بھی معاشی ریلیف نہ ملا تو عمران فیکٹر سیاسی موت نہیں مرے گا۔قانون اپنا راستہ لے رہا ہے کیا میاں نواز شریف اور مریم کوئی ایسا سیاسی بیانیہ بنائیں گے جو سیاسی معاشی استحکام کی بنیاد رکھ سکے؟