جنرل نصیراللہ بابر مرحوم ان دنوں وزیر ِداخلہ تھے۔ خدا مغفرت کرے، بڑے دبنگ انسان اور کھرے پٹھان تھے۔ اے پی پی نے وزارت ِداخلہ کے بارے میں خاصی چبھتی ہوی خبر دی۔ خبر جتنی سخت کڑوی تھی، جنرل صاحب اتنے ہی برافروختہ بھی ہوئے۔ شکایت لے کر، جنرل صاحب سیدھے وزیر ِاعظم کے پاس گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ جو سرکاری ادارہ ایسی غلط خبریں دیتا ہے، اسے بند ہی کر دیجیے۔ بی بی نے اظہر صاحب کو بْلا بھیجا۔ استفسار پر، وہ خبر کی صداقت اور صلابت پر مصر رہے۔ دوسری طرف جنرل مرحوم، اسے بالکل غلط قرار دے رہے تھے۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ وزیر ِاعظم نے تفکر سے کہا کہ بڑے زوردار پہلوانوں کا، آپس میں ٹکرائو ہو گیا ہے۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ چند روز بعد، خبر کی صداقت ثابت ہو گئی۔ مرحوم نصیراللہ بابر نے اظہر صاحب کو فون کر کے، بزبان ِانگریزی کہا کہ میری غیر مشروط معذرت قبول کیجیے۔ اس کے بعد، ان دونوں کے درمیان، بڑی گہری دوستی ہو گئی۔ بظاہر اکھڑ اور کھردرے نظر آنے والوں کے بارے میں، سعدی کی نصیحت، برحق ہے۔ یا مکن با پیل بانان دوستی یا بنا کن خانہ در خورد ِپیل اونچے لوگوں کی آمد کے لیے، گھر کے دروازے بھی اونچے ہونے چاہئیں! اظہر صاحب کے ایسے ہی ایک قریبی دوست ڈاکٹر شعیب سڈل بھی تھے۔ ان کے بھی کھَرے پن کو کھّْرا پن سمجھا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے مداح تھے والد ِمرحوم کے۔ اور اظہر صاحب بھی ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی تکلیف دِہ حد تک صاف گو ہو گا، وہ نڈر بھی ہو گا اور ضدی بھی۔ ایسا انسان نہ کسی سے خم کھاتا ہے اور نہ تڑی ہی میں آتا ہے۔ ایسے لوگوں کی میزان، اپنے جیسوں ہی سے پَٹتی ہے۔ لیکن ہنر بچشم ِعداوت، بزرگ تر عیب ست گْل ست سعدی، و در چشم ِدشمنان، خار ست دنیا انہیں سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اظہر صاحب سے پہلے، اے پی پی کی ہیئت کذائی یہ تھی کہ اسلام آباد کے ایک لق و دق گھر میں، اس کا صدر دفتر قائم تھا۔ ڈی جی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، انہوں نے اولین کام یہ کیا کہ وزیر ِاعظم کے ذریعے، فنڈنگ منظور کرا کے، یہ دفتر ایک بڑی عمارت میں منتقل کرایا اور پہلی مرتبہ، اے پی پی میں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال ہونے لگی۔ کہاں وہ پہلے کا ڈھنڈار دفتر، جس کے کارکن دفتر سے اس طرح غائب رہتے تھے کہ ع ہر چند کہیں کہ ’’ہیں‘‘، نہیں ’’ہیں‘‘ کے زمرے میں آتے تھے اور کہاں یہ نیا ادارہ، جس کے فعال نمائندے، ملک کے ہر شہر میں تھے۔ ادھر تو یہ سب ہو رہا تھا اور دوسری طرف، وہ "مجروحین" تھے، جنہیں "مقابل ہے آئینہ" میں چرکے لگائے جاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی مخالفت میں، جو اخبار سب سے اوپر تھا، اسے کبھی لائق ِتوجہ ہی نہیں سمجھا گیا اور پروگرام میں اس کا کبھی نام تک نہ لیا گیا۔ اسی اخبار کے سرکاری اشتہار ان دنوں بند تھے۔ اس کے دونوں مدیر، اشتہاری بندش کی ساری بھڑاس یوں نکالتے تھے کہ بلا ناغہ، والد ِمرحوم کے خلاف ہر روز نیا "قصیدہ مدحیہ" چھاپا جاتا۔ مگر اخبار کی اپنی کمر بھی ٹوٹی جا رہی تھی۔ اس لیے، بڑی جد و جہد کی گئی کہ کسی طرح اظہر صاحب سے مصالحت کی بنا پڑ جائے۔ اس کی سب سے بڑی کوشش کے، ہم سارے بہن بھائی عینی شاہد ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک روز، دروازے پر دستک کے جواب میں، جب بیٹھک کا دروازہ کھولا گیا تو دو خواتین اور ان کے پیچھے دو مرد حضرات، فورا در آئے۔ میرے چھوٹے بھائی نے یہ سمجھ کر کہ والد صاحب کے کوئی بے تکلف دوست ہوں گے، اندر جا کر اطلاع دی۔ والد صاحب بیٹھک میں داخل ہوئے تو دونوں مدیر صاحبان کو دیکھ کر، سخت برہم ہوئے لیکن ان کی بیگمات بھی ہمراہ تھیں۔ انہی سے مخاطب ہو کر، پہلے دو چار رسمی جملوں میں حال احوال پوچھا اور پھر اٹھ آئے۔ اس دوران، خود مدیر صاحبان کے متغیر اور متزلزل چہروں پر انفعال دوڑتا رہا اور حالت وہی رہی کہ ع کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور بقول ِغالب ع نہ بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے اس قضیہ نا مرضیہ کے بعد بھی، اخبار کے اشتہارات نہ کھلنا تھے نہ کھلے۔ مدیر حضرات دو تین روز تو اسی امید میں، دم سادھے چْپکے رہے۔ چوتھے دن، پہلی دفعہ، اخبار کی شہ سْرخی بھی والد صاحب کے خلاف تھی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! ان واقعات سے، خیال نہ ہو کہ طبیعت میں خشونت اور یبوست تھی۔ اس کے بالکل برعکس، جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا تھا، قدم قدم پر لطیفے بکھیرتے جاتے۔ اسلام آباد سے یہ جب لاہور جایا کرتے تو اپنے پرانے صحافی دوستوں کے ساتھ، ضرور پھڑ جمتی۔ عباس اطہر، منو بھائی، جواد نظیر، خدا ان سب کی مغفرت کرے اور دوسرے دوست، دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے اور پھر، اظہر صاحب کی خوش گفتاری شروع ہوتی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب نے کہا تھا کہ اظہر سہیل ان بلا کے فقرے بازوں میں سے ہیں، جو فقرہ ضائع نہیں کرتے، بندہ ضائع کر دیتے ہیں! بندوں کے اس "ضیاع" نے اظہر صاحب کو نقصان بھی بہت پہنچایا۔ اس کے پیچھے کوئی بدنیتی یا کسی کی تضحیک کا جذبہ نہیں تھا۔ فقرے بازی اور مزاح پسندی کی، شاید نہایت اگلی منزل یہ ہے کہ پھبتیاں، اپنے آپ پر بھی چْست کی جائیں۔ یہی واقعہ کچھ عرصے پہلے، ان کے عزیز دوست محترم اظہار الحق صاحب نے لکھا ہے۔ اظہار صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ مرحوم اظہر سہیل ایک فقرہ کہا کرتے تھے کہ بات کر کے دیکھ لیتے ہیں، مانی گئی تو ٹھیک ورنہ ہماری کون سی پہلی بار بے عزتی ہو گی! ان کی حاضر جوابی نے کہیں احمد فراز جیسے فقرے بازوں کو چِت کیا اور کہیں اداکار محمد علی، اس کا شکار ہوئے۔ احمد فراز سے تو ان کی بے تکلفی ہی تھی۔ لیکن محمد علی مرحوم، بے وجہ انہیں چھیڑ بیٹھے تھے۔ افسوس کہ بیشتر واقعات ناگفتنی ہیں اور کسی کی دل آزاری بھی مناسب نہیں۔ ورنہ کم از کم ان کے ایک پرانے دوست کا ذکر ضرور ہوتا، جن سے "چٹان" اور "شہاب" کے زمانے کے مچیٹے چلے آ رہے تھے۔ اظہر صاحب نے ان کے نام میں صرف ایک حرف کا ایسا اضافہ کیا کہ جس سے سیرت اور صورت، دونوں آئینہ ہو گئیں!