لکھنے کا عمل میکانکی نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہ کالم نگار جو ہفتے میں تین سے چار کالم اخبار کے لیے لکھ مارتے ہیں ان کے لیے یہ تخلیقی سر شاری سے خالی محض لکھتے چلے جانے کا عمل بن کے رہ جاتا ہے۔لیکن ان تمام حقائق کے باوجود لکھنا کلی طور پر ایک مشینی عمل نہیں بن سکتا ۔ جیسا کہ آج کل آرٹی فیشل انٹیلینجنس کے حیرت ناک سوفٹ وئیر کے ذریعے موضوع اور چندکی ورڈ جملوں کو فیڈ کرکے طویل مضمون پل بھر میں لکھ دئیے جاتے ہیں۔ لکھنے والا مگر انسان ہے روبوٹ نہیں وہ جذب کرنے سوچنے ،سلگنے اور کڑھنے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے ۔لکھاری ایک سیاہی چوس کی طرح زندگی کے اچھے برے حالات کو اپنے اندر جذب کر تا ہے یہی سب عناصر اس کی تخلیقی ورکشاپ میں پراسس ہوتے اور اپنے وقت پر پیرایہ اظہار میں ڈھلتے ہیں۔ کالم نگار نے چونکہ حالات حاضرہ پر لکھنا ہے تو اس کے اندر کا حساس تخلیقی میکانزم اپنے بیرون سے جڑا رہتا ہے۔ طرح طرح کے مسائل میں ہم خود کفیل ہیں ملک میں حادثوں کا اور سانحوں کی بھی کمی نہیں۔کوئی ایسا سانحہ جو عوام کے اجتماعی دکھ اور غم کا حصہ بنے وہ ضرور پراسس ہوکر کالم نگار کی کی تحریر کا حصہ بنتا یے۔اگر نہ بنے تو پھر وہ اخبار کا کالم نگار نہیں مضمون نگار یا کوئی انشا پرداز ہے۔ بعض سانحات بوجوہ ایسے بھی گزرتے ہیں جن پر وہ لکھ نہیں سکتا کیونکہ اسے گریزکرنا ہوتا ہے۔گریز کی پالیسی بیرونی طور پر تو ایک خود اختیار کردہ عمل ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ لکھنے والے کا اندرونی تخلیقی میکانزم اور سوچ کا سارانظام اس چیز کو ماننے سے انکاری ہوتا ہے۔ اس کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اس بڑے سانحے کے سوالات کو نظر انداز کرکے زندگی کے کسی دوسرے شگفتہ پہلو پر لکھنا شروع کردے۔ یہ گریز اس کے حساس میکانزم پر پر بوجھ بن جا تا ہے اور اس بوجھ کو اتارے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ وہ منہ زور ندی ہے جو کسی نہ کسی صورت اپنا راستہ بنا کے رہتی ہے ۔ تخلیقی توا نائی سے بھرا ہوا مصنف ہزار قد غن کے باوجود اظہار کا کوئی راستہ نکال ہی لیتا ہے۔ کبھی علامتی اور کبھی بے حد ملفوف۔۔جس سے اس کے اندر کے اس لکھاری کی تسلی ہوجاتی جو رکی ہوئی ندی کے آگے بے بس ہوکر اظہار کے عمل سے گزر جانا چاہتا ہے۔ شاید ادب میں علامتی تحریروں کا رواج بھی خوف کے ایسے ہی موسموں میں پڑا ہو جب علامتوں میں وہ کچھ لکھا گیا جو کھل کر واضح بیان نہ کیا جاسکتا ہو۔ اظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں اور اس میں ایک طریقہ رنگوں سے اظہار کا بھی ہے۔ دنیا کے ان ملکوں میں جہاں انسان سہولت سے اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں اور اس آسودگی میں انہیں بنیادی ضرورتوں کے میسر نہ ہونے کے خطرات لاحق نہیں ہوتے۔ وہاں یہ دن فنکاروں کا دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اکتوبر کے مہینے کے لیے یہ دن بہت مناسب محسوس ہوتا ہے کیونکہ اکتوبر کا مہینہ قدرت کے کینوس پر بنی ہوئی خوبصورت تصویر ہے۔مگر ہم جیسے تیسری دنیا کے لوگ استحصال کی کئی صورتیں جنگ ،دہشت ،افلاس اور موت کی صورت سہتے ہیں۔جہاں کھل کے اظہار مشکل کہ ان کہی پابندیاں سر پر تنی ہوں ، جہاں بہت سی چیزیں جو آپ کے اندر کہرام مچاتی ہیں آپ ان پر سوال نہ اٹھا سکتے ہوں۔ ہمارے سماج کا غریب شخص پوری زندگی اپنے پیٹ کو بھرنے کی جدوجہد میں گزار دیتا ہے، پھر اس سے اوپر کا سفید پوشی میں لپٹا متوسط طبقہ زندگی کی دوڑ میں پورے لوازمات کے ساتھ شریک بھی ہونا چاہتا ہے مگر اس کی جیب بھی ہلکی رہتی ہے، وہ ایک اور طرح کی اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ طبقہ جو روٹی کے مسائل سے نکل گیا وہ اپنے اپنے احساس کمتری کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ہمارے اندر کا احساس کمتری صرف دولت کی نمائش پر پلنا پسند کرتا ہے۔ آرٹ کا اظہار اس دل میں خواہش بنتا ہے جس کے اندر نمائش نہ ہو جو زندگی میں خوامخواہ کے بوجھ لے کر چلنا پسند نہ کرتا ہو۔ 25 اکتوبر کو آرٹسٹ ڈے دنیا میں کہیں تو منایا گیا ہوگا۔ کینوس پر رنگ بکھیرنے والا بھی آرٹسٹ ہے اور لفظوں سے تصویر بنانے والا بھی ، اسی طرح فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے فن کار ہی تو ہیں۔ورلڈ آرٹسٹ ڈے کی ویب سائٹ پر لکھا تھا ، 25 اکتوبر کو آرٹسٹ ڈے منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب سچے فنکار کو کھانا کھلانے لے جائیں۔ یہ پڑھا تو دل ہی دل میں ہنسی آگئی اور سوچا ایسے غربت کے مارے فنکار تو ہم جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ شاکرشجاع آبادی اور ساغر جیسے لوگ جو خاک بسر ہو کر تخیل کی کہکشاؤں میں سفر کرتے ہیں یہ دو تو بڑے نام ہیں لیکن آج بھی فن کی خدمت کرتے ہوئے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اپنے گھروں کی حسرتیں اور اپنے سے وابستہ افراد کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو یہ کرب ان کے فن میں جھلکنے لگتا ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آئے اور رائٹر بلاک کی کیفیت پیدا ہونے لگے تو میں شاعری پڑھتی ہوں ، اچھی نثر سے اپنی آو بھگت کرتی ہوں یا کبھی رنگوں سے کینوس پر تصویر بناتی ہوں۔ جی بہل جاتا ہے اور وقت ٹل جاتا ہے ۔ بہت کچھ محسوس کرنا اور کچھ نہ لکھنا لکھاری کے لیے ایسی کیفیت ہے کہ آنکھیں دکھ سے پگھل رہی ہوں مگر رونا منع کردیا جائے۔ نذیر قیصر کے اشعار ہیں آنکھیں پگھل رہی تھیں مگر رو نہیں سکا یہ شہر اپنے غم سے رہا ہو نہیں سکا اس رات آسمان کی رنگت عجیب تھی اس رات اپنے گھر میں کوئی سو نہیں سکا مجھ کو تو خیر عکس نے زنجیر کر دیا تجھ سے بھی آئینوں میں سفر ہو نہیں سکا