خدا کا شکر ہے کہ مسلمان ملکوں نے امت مسلمہ کے لیے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ مصیبت و ابتلا میں گھرے افغان عوام کی دستگیری کے لیے مسلمان ممالک نے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے جس سے عالمی برادری بھی حرکت میں آئے گی۔ شدید سردی کے موسم میں لاکھوں افغانوں کو بھوک اور قحط سے بچانے کے لیے پاکستان کی کوششوں سے اگلے روز اسلام آباد میں آرگنائزیشن آف اسلامی کانفرنس (اوآئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں غیر مسلم ممالک اوراقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے۔ فیصلہ کیا گیا کہ افغان عوام کی مدد کے لیے اسلامی کانفرنس ایک ٹرسٹ قائم کرے گی ۔ یہ ٹرسٹ مختلف ملکوں اور اداروں سے ملنے والے عطیات اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے افغان عوام تک پہنچائے گا۔ کانفرنس کا افغان معاملہ پر ایک نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ رابطہ کاری کر سکے۔ سعودی عرب نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان عوام کے لیے ایک ارب ریال کی رقم عطیہ کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ افغانستان میں اگلے چار ماہ تک پڑنے والی شدید سردی کے موسم میں لاکھوں انسان گرم کپڑوں اور کھانے پینے کے سامان کے بغیر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تین کروڑ افغانیوں کو خوراک کی عدم فراہمی اور بھوک کا سامنا ہے اور دس لاکھ افغانی بچے سردی کے موسم میں بھوک سے مر سکتے ہیں جبکہ بائیس لاکھ بچے ضرورت سے کم غذا ملنے کے باعث نامکمل نشوونما کے مسئلہ سے دوچار ہیں۔شدید سردی ہے۔ اس برس کم بارشوں کے باعث ملک خشک سالی کا شکار ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں یہ دوسری خشک سالی ہے۔داعش کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے امن و امان کے خطرات پُر امن شہریوں کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔اس پر مستزاد عالمی برادری نے افغانستان کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ طالبان حکومت کو جائز تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ افغانستان آج جس خراب صورتحال سے دوچار ہے عالمی برادری اور بڑی طاقتیں اسکی ذمہ دار ہیں۔ امریکہ بیس سال تک افغانستان پر اپنے ملازموں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ذریعے حکومت کرتا رہا۔ یہاں اس نے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ۔ زیادہ تر فوجی کاروائیوں پر۔ اس برس جولائی میں افغان مزاحمت سے شکست کھا کر امریکی دُم دبا کر افغانستان سے بھاگ گئے۔انکل سام کی بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ افغانستان میں بیس برس تک ٹھوس معیشت کی بنیاد نہیں رکھ سکا۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اسکی معیشت صدیوں سے زراعت اور گلہ بانی پر مشتمل ہے۔ افغانستان کے مسائل کا دیرپا حل یہ تھا کہ اس قبائلی معاشرہ کو جدید شہری معاشرہ میں تبدیل ہونے میں مدد فراہم کی جائے۔ یہاں صنعتی ترقی کو فروغ دیا جائے۔ امریکہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے صنعتی زون بناتا ۔ انہیں متبادل روزگار مہیا کرتا تو وہ لڑائی جھگڑوں اور اسمگلنگ کی طرف راغب نہ ہوتے۔ ظلم ہے کہ امریکہ نے بھوک اور قحط کے شکار افغانیوں کے دس ارب ڈالر اپنے بینکوں میں منجمد کردیے ہیں۔ اگر افغانستان کی موجودہ حکومت جمہوری نہیںہے تومشرق وسطیٰ میں امریکہ کے دوست ممالک میں کونسی جمہوری حکومتیں کام کررہی ہیں؟ وہاں بادشاہتیں قائم ہیں۔واشنگٹن کی نگرانی میں کابل میں جو حکومت قائم تھی، اس کا پچہتر فیصد بجٹ بیرونی امداد سے آتا تھا۔ اب وہ امداد بند کردی گئی ہے۔ افغان حکومت کے پاس دس لاکھ سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں ہے۔ عالمی بینکنگ کا نظام امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ واشنگٹن نے افغانستان سے لین دین پر پابندی لگادی ہے۔ بیرون ممالک سے تجارت کے لیے رقوم افغانستان نہیں جاسکتیں۔ کچھ دن پہلے امریکہ نے بینکوں کو اجازت دی ہے کہ افغان تارکین وطن افغانستان میں اپنے خاندان کو ذاتی رقم بھجوانا چاہیں تو وہ منتقل کردی جائے۔ اسوقت عالمی ادارے جیسے ورلڈ فوڈپروگرام ہنڈی کے ذریعے کابل میں رقوم منتقل کررہے ہیں۔ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس کے تحت ملنے والے عطیات کی رقم کو کابل پہنچانے کے لیے عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی قرارداد 1276کے تحت طالبان پر لگائی گئی کچھ پابندیاں عارضی طور پر ہٹانا پڑیں گی۔ مسلمان ممالک کو امریکہ پر زور دینا چاہیے کہ وہ طالبان حکومت کو فی الحال پورے دس ارب ڈالر نہ سہی کم سے کم دو تین ارب ڈالر جاری کردے ۔ خوشی کی بات ہے کہ امریکہ کے اندر سے بھی افغان عوام کے حق میں آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔ اٹلانٹک کونسل نامی موقر جریدہ میں امریکی اسکالرز نے افغان عوام کی مدد کرنے کی حمایت میں مضمون لکھا ہے۔ چند امریکی ارکان کانگریس نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے کہ امریکہ افغان حکومت کے منجمد اثاثے بحال کرے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد پچاس لاکھ افغانیوں کو خوراک اور دیگر اشیا فراہم کرے گا۔ دوسری طرف‘ افغانستان کے بحران کے پائیدار حل کے لیے طالبان حکومت کو عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں میں لچک اور تبدیلی لانا ہوگی۔ اسوقت صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ افغانستان کے چار اہم ہمسایہ ممالک روس‘ چین‘ ایران اور پاکستان طالبان حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ رُوس سمجھتا ہے کہ افغانستان سے اسلامی شدت پسند وسط ایشا میں داخل ہوکر اسکی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث بنیں گے۔ چین کو سنکیانگ کی فکر ہے جہاں سے بھاگے ہوئے شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں۔ ایران کے افغانستان میںتاجک برادری پر مشتمل سیاسی قوت شمالی اتحاد کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ جب تک طالبان ان کو اقتدار میں پوری طرح شریک نہیں کریں گے، تہران کابل حکومت سے تعاون نہیں کرے گا۔ پاکستان کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) چیلنج بنی ہوئی ہے۔ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے اسکی دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان کے تحفظ و سلامتی کا مسئلہ ہیں۔ اسلام آباد کا دیرپا تعاون حاصل کرنے کے لیے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فورسز کی سنجیدہ اور بھرپور مدد کرنا ہوگی۔ عالمی برادری چاہتی ہے کہ طالبان حکومت خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے حقوق کی حفاظت کرے ۔ ان پر سخت پابندیاں عائد نہ کرے۔ مختلف نسلی دھڑوںکو حکومت میںشریک کیا جائے۔ ان مطالبات کو پور اکیے بغیر عالمی برادری طالبان حکومت کو جائز تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ افغانستان میں طویل مدتی بحران کا حل ان متنازعہ معاملات کو سلجھانے سے وابستہ ہے۔ افغان عوام کو خانہ جنگی اور جنگ و جدل میں زندگی گزارتے بیالیس برس گزر گئے۔ اب اِس طویل ابتلا کا خاتمہ ہونا چاہیے۔