رات سے دل میں خواہش ہے کہ نیلسن منڈیلا کی آپ بیتی کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کیا جائے، آخر انسان کیا کرے؟ س وقت وطن عزیز میں بہت کچھہ ایسا ہے، جس پر لکھا اور بولا نہیں جاسکتا، پرسوں ایک جاننے والے جو ان دنوں دبئی میں ہیں۔پاکستان آئے تو ملاقات میں بتایا وہاں سیاسی گفتگو کی اجازت نہیں، دو یا اس سے زیادہ افراد کہیں سیاسی گفتگو کرتے پائے جائیں تو انھیں روک دیا جاتا ہے، سن کر کچھ تسلی ہوئی لیکن پاکستان میں مہنگائی کا تریاق بھی ضروری ہے۔عوام جو 76 برسوں سے قوم نہ ہونے کا طعنہ سنتی تھی اور کہا جاتا تھا: یہ لوگ بے حس ہیں، اپنے حقوق کیلئے بھی آواز بلند نہیں کرتے، مہنگائی نے پاکستانی قوم کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم سب نے 2 ستمبر کو وطن عزیز میں تاریخی شٹر ڈاؤن ہڑتال دیکھ لی،۔تاریخی اس لیے کہ یہ ہڑتال عوام کی کال پر تھی، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر اس میں شامل تھے، تاہم بجلی کے بھاری بھرکم بلز پر احتجاج تھما نہیں، ملک کے مختلف حصوں سے احتجاج کی خبریں تاحال موصول ہو رہی ہیں جبکہ نگران حکومت کے حوالے سے خبریں ہیں کہ آئی ایم ایف سے بات چیت چل رہی ہے، اللہ کرے، ملک کے غریب کو کچھ ریلیف ملے لیکن دکھ کی بات ہے کہ ہمیں اب عوام کو ریلیف دینے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے اجازت لینا ہوگی۔فسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کی اہم ترین جغرافیائی حیثیت اور معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔کیا اس بے درد کہانی میں ہماری غفلت شامل ہے یا ہم حادثات کا شکار رہے؟ وطن عزیز کی 76 سالہ داستان ہماری غفلت اور ان حادثات سے بھری پڑی ہے، جس کے ذمہ دار صرف اور صرف ہم خود ہیں اور کوئی نہیں، ایک دفعہ گمان میں لائیے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جب اس جہاں فانی سے کوچ کر رہے تھے تو ان کے آخری الفاظ تھے ’’اللہ.۔۔.پاکستان‘‘. قائد اعظم جتنے عظیم سیاستدان‘ انسان اور رہبر تھے، اس سے کہیں زیادہ شدت کیساتھ پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت کرتے تھے ۔بانی پاکستان 28 فروری 1948ء کو مسلم لیگ کی صدارت سے سبکدوش ہوگئے‘ وہ پاکستان کو کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کی بجائے بانی و رہبر کی طرح دنیا میں ایک اعلی مقام دلوانے کے خواہاں تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد سیاستدانوں‘ بیورو کریسی اور حکمرانوں کے طور طریقوں نے قائد اعظم کو بھی بہت زیادہ رنجیدہ کر رکھا تھا‘ قائد اعظم ان کی تربیت کرنا چاہتے تھے ، شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور قائد اعظم پاکستان کے قیام کے صرف 13ماہ بعد وفات پاگئے‘ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اپنی مختصر زندگی میں ایک موقع پر فرمایا کہ میں دیہات گیا ہوں‘ لاکھوں کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی‘ کیا یہی تہذیب و تمدن ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ کروڑوں انسانوں کااستحصال ہورہا ہے؟ کیا انہیں ایک وقت کی غذا بھی فراہم نہیں کی جاسکتی؟ اگر پاکستان اسی کا نام ہے تو مجھے یہ نہیں چاہیے‘ بانی و محسن کے اس فرمان کو انہوں نے کتنے درددل کیساتھ بیان کیا ہوگا‘ اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے لگایا جاسکتا تھا‘ قائد اعظم جب گورنر جنرل پاکستان تھے‘ اسی وقت ملک میں محلاتی سازشوں کا آغاز ہوچکا تھا، اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ نیلسن منڈیلا نے قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا آئیڈیل سیاسی رہنما قرار دیا اور آج قائد اعظم کے اس پاکستان میں عوام کی حالت زار پر دکھ ہوتا ہے۔قائد اعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی جمہوری مملکت کے طور پر دنیا میں اعلیٰ مقام دلوانے کے خواہاں تھے، کیا کسی کو شک ہے کہ قائد اعظم اپنے مشن اور مقصد میں کامیاب نہ ہوتے؟ یقیناً ہر پاکستانی کو یقین محکم ہے کہ جناب محمد علی جناح پاکستان کو دنیا میں اعلیٰ مقام ہر حال میں دلواتے، قائد اعظم کی عظمت کے کیا کہنے! وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سب سے مقبول اور محبوب لیڈر اپنے کردار کی وجہ سے بنے تھے، انھیں سیاست میراث میں نہ ملی تھی، ایک مرتبہ قائد سے کہا گیا کہ آپ پینٹ کوٹ اور انگلش کیپ کی بجائے، دیسی لباس اور ٹوپی پہنا کریں، کہنے والے نے کہا کہ ایسا کرنے سے عوام میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا، قائد اعظم نے مخاطب کو ڈانٹ دیا، کہا: میں جو اندر سے ہوں، وہی نظر آؤں گا، اپنی قوم کو دھوکا نہیں دے سکتا، پھر جب قائد اعظم نے جناح کیپ پہنی اور شیروانی ملبوس تن کرنے لگے تو ساری زندگی، اسے ہی اپنا لباس رکھا، قائد اعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہے، فرمایا: آج سے چودہ سو سال قبل ہمارا آئین قرآن مجید کی شکل میں ترتیب دیا جاچکا، بانی پاکستان نے فرمایا تھا: آپ سب آزاد ہیں، پاکستان حاصل کرنے کیلئے بہت قربانیاں دیں لیکن پاکستان قائم کرنے کیلئے ابھی اور قربانیاں دینا ہوں گی، مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا، پاکستان کے عوام 76 برسوں سے قربانی دے رہے ہیں لیکن حکمرانوں نے ملک کو ترقی نہیں کرنے دی، اب قوم گھبرا چکی ہے، دو وقت کی روٹی اور بجلی، گیس، پٹرول عوام سے جینے کا حق چھین رہے ہیں، جمہوری اور غیر جمہوری ادوار یعنی ہر حکومت میں عوام کو ظلم کی چکی میں پیسا گیا ہے اور جب عوام حقوق کی متلاشی بن کر سیاست کا حصہ بننے لگتی ہے، جمہوریت کا راگ الاپنے والے پوری قوت سے عوام کا راستہ روکنے پر تل جاتے ہیں، یہ سیاسی لوگ جو اپنے مسائل اور قربانیاں بیان کرتے نہیں تھکتے، بیرون ملک علاج کی غرض سے جا بیٹھتے ہیں، اپنی ان دیکھی قربانیاں گنواتے ہیں، نیب قوانین میں ترامیم کر کے پارسا بن جاتے ہیں، ان کیلئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے: قائد اعظم شدید علیل تھے، زیارت میں اپنی رہائش گاہ پر کھانا پینا بھی چھوڑ چکے تھے، اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ نے ان کے پسندہ باورچی کو تلاش کر کے زیارت بھیجا، جناب جناح کھانے کی خوشبو سونگھتے ہی خوش ہوگئے، دل بھر کر کھانا نوش فرمایا اور پھر پوچھا: اس باورچی کو کیسے تلاش کیا؟ مخترمہ فاطمہ جناح نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے اسے تلاش کر کے لائلپور سے بھیجا ہے، فرمایا: فورا حکومت کے آنے والے اخراجات ادا کیے جائیں، قائد اعظم ہوتے تو پاکستان کیسے ترقی نہ کرتا! آخر انسان کیا کرے؟ س وقت وطن عزیز میں بہت کچھہ ایسا ہے، جس پر لکھا اور بولا نہیں جاسکتا۔