سید اکبر حسین رضوی صاحب الٰہ آبادی بول رہے تھے اور یہاں سامعے میں، ان کا وجد آفریں شعر گونج رہا تھا اپنی منقاروں سے حلقہ کَس رہے ہیں جال کا طائروں پر سِحر ہے، صیاد کے اقبال کا یہ ہمارے شاعر کا مشاہدہ تھا، جو دیکھتی آنکھوں اور جاگتے دماغ سے کیا گیا۔ اللہ! اللہ! ادبار کی یہ حالت کہ جال میں پھنسے پرندے، مسحور بھی ہیں۔ سِحر کے مارے، یہ جال توڑنے کی فکر تو کیا کرتے، سر جھکائے، بلکہ گردنیں ڈالے، اپنی چونچوں سے، اس کے حلقے کستے بھی جا رہے ہیں۔ یہ سِحر، شکاری کے اقبال کا سِحر ہے! اس نے جسموں ہی کو قید نہیں کیا، ذہنوں کو بھی پابند کر دیا ہے! گویا چیرہ دست، عامل ہے اور نخچیر معمول! ہزار افسوس کا ایک افسوس کہ یہ پھنسے ہوے ہی نہیں، پھنسنے پر خوش بھی ہیں اور شکر گزار بھی! ہر بگولہ تھینکس میں مصروف صبح و شام ہے اس طرح برباد کرنا، آپ ہی کا کام ہے! جو کچھ اکبر کہہ رہے تھے، اس کا لب ِلباب یہ تھا کہ انگریزوں کو ہرگز کوئی دلچسپی، ہندوستانیوں کی فلاح سے نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو ان کے حقوق پہلے واپس کر دیے جاتے۔ مگر یہاں، اگر امکان میں ہوتا، تو شاید سانس لینے پر بھی ٹیکس عاید کر دیا جاتا! تعلیم کو وہ ایک ایسے پھندے یا جال کی طرح استعمال کر رہے تھے، جس کا بڑا کمال یہ تھا کہ اس میں پھنسا ہوا پھنستا ہی چلا جاتا تھا۔ تڑپو گے جتنا جال کے اندر جال گھسے گا کھال کے اندر اس زمانے کے مسلمانوں اور ہندوئوں کے باہمی تعلقات کی نسبت، ذہن میں ہمیشہ کرید رہی اور یہ قلق کہ کاش اس زمانے کے کسی بزرگ سے، اس کی بابت، براہ ِراست پوچھا گیا ہوتا۔ قسمت سے یہ ملے تھے، چنانچہ پوچھا کہ بعد کو تو باقاعدہ تقسیم ہو گئی، لیکن آپ کے زمانے میں، ان کے آپسی معاملات کی کیا کیفیت تھی؟ اکبر متاسف نظر آنے لگے۔" بھلے اور برے اس زمانے میں بھی تھے۔ لیکن اْس دور کے بھلے، بعد والوں سے بہتر اور بْرے، بعد میں آنے والے بْروں سے بدرجہا بہتر تھے۔ ہندوئوں کی چھوت چھات، جب آپس میں بھی قائم تھی تو پھر اس سے زیادہ، مسلمانوں سے کیوں نہ کی جاتی؟ مسلمانوں کے یہاں جَل پان کرنا تو کجا، اکثر متعصب ہندو ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ بر ِصغیر پر کئی صدیوں سے مسلمانوں کی حکومت چلی آئی تھی۔ ہندو یہاں کی رعایا تھے۔ اب جو انگریز یہاں قابض ہوے تو ع بیک گردش ِچرخ ِنیلوفری مسلمانوں کے لیے، سب کچھ ہی تلپٹ ہو گیا۔ ہندوئوں پر البتہ اس کا اثر کم ہوا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی محکومیت زیادہ اور حقوق بہت کم ہو گئے تھے، مگر مسلمانوں کی حالت عبرت ناک تھی۔ یہ حاکم سے محکوم ہوئے تھے اور اب صرف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ہندووں کی محکومیت قرن ہا قرن سے چلی آ رہی تھی۔ مگر قسمت سے یہ، پہلی مرتبہ، حاکمیت کی لڑائی لڑ رہے تھے! میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اکثر ہنود کے لیے انگریز، ایک ایسی نعمت ثابت ہو رہے تھے، جو ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی! اس لیے کہ انگریز پردیسی تھے اور دیر سویر، ان کو یہاں سے رخصت ہونا ہی تھا۔ اس کے برعکس، مسلمانوں کو یہیں مرنا بھرنا تھا۔ خیر، جو ہونا تھا، ہو کر رہا"۔ آہ بھر کر اکبر خاموش ہو گئے۔ پھر ذرا ٹھہر کر بولے۔ میاں! تم خوش قسمت ہو کہ ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے۔ آزادی تک میں جیتا رہتا، تو لاہور میں جا بستا! لاہور کے ذکر پر میں نے کہا کہ وہاں اگر اب جانا ہو تو خواجہ محمد زکریا صاحب سے، ضرور ملیے گا۔ سچ یہ ہے کہ ع ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، اور وہ کام کرتے ہیں! جتنا اور جیسا کام آپ پر انہوں نے کیا ہے، وہ باقی تمام لوگوں کے مجموعی کام سے بھی وزنی ہے! ان دنوں، وہ آپ کے خطوط کا مجموعہ مرتب کر رہے ہیں۔ یہ سن کر اکبر کے چہرے پر یک گونہ مسرت اور طمانیت نمایاں ہو گئی۔ ذرا توقف کے بعد، کہنے لگے۔ میری شاعری میں تمہیں گائے اور اونٹ کی نسبت، جو اشارے اور مقامات ملتے ہیں، وہ زیادہ تر ہندو مسلم تفرقے ہی کا بیان ہیں۔ ہنود کے سب سے بڑے لیڈر گاندھی میں، خوبیاں بھی رہی ہوں گی، مگر مجھے ان میں شعبدہ بازی کا عنصر زیادہ نظر آیا۔ اس زمانے میں مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ، ابھر رہے تھے، لیکن گاندھی کی ٹکر کا ایک نہ تھا۔ اسی لیے گاندھی کا قافیہ آندھی باندھا گیا اور ان کے ہم نوائوں کو بدھو میاں اور مشت ِخاک سے تعبیر کیا گیا۔ میں نے فورا پوچھا کہ اپنے دوست ڈاکٹر اقبال کے بارے میں کیا کہیے گا؟ آپ ان کے مداح تھے اور وہ خود کو آپ کا مرید کہتے تھے۔ کسی خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ کاغذ اور قلم لیے، آپ کے پاس بیٹھے رہا کریں اور جو کچھ معارف آپ کی زبان سے نکلتے ہیں، انہیں قلم بند کرتے جائیں! جہاں دیدہ بزرگ نے مسکرا کر کہا ہاں، اقبال میرے خرد ہی تھے۔ مگر علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے۔ اسی لیے کہا تھا کہ محفل ِعلم و خرد میں، جوش تھا اکبر کو رات ہو گیا ساکت مگر، جب ذکر ِاقبال آ گیا میں نے پوچھا کہ خواجہ حافظ شیراز کے معاملے میں، آپ دونوں میں اختلاف بھی ہوا۔ انہوں نے جوابا کہا کہ بھائی! یہ اختلاف ان کے اور میرے دوست خواجہ حسن نظامی کے درمیان ہوا تھا۔ بعد کو ان میں بھی صفائی ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے دونوں دوستوں کی دلداری مقصود تھی، پھر بھی ممکن ہے کہ کہیں کوئی لفظ، سخت نکل گیا ہو۔ یہ ضرور ہے کہ ان دنوں، جو بھی نئی تحریک اٹھتی تھی، پرانے ڈھچروں کو توڑنے کے لیے ہی اٹھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ساری نئی باتیں، مجھے کھٹکتی تھیں۔ ہم پر مغربیت کی یلغار، شش جہت سے ہوئی تھی اور مدافعت کرنے والے، گنتی کے دو چار ہی لوگ تھے۔ ذرا توقف کے بعد، مسکرا کر بولے۔ اقبال بھی میرے ہمساے ہیں۔ مولانا رومی سے، اور مجھ سے بھی، انہیں اب بھی ویسی ہی محبت ہے، جس کا اظہار، وہ دنیا میں کرتے رہے۔ کتنی ہی علمی اور ادبی گتھیاں ہم مل کر سلجھاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر، انہوں نے اچانک کہا کہ ایک سوال میںبھی کرتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ دنیا جس ڈھرے پر چڑھ چکی ہے، اس میں پرانی وضع داریاں اور طرح داریاں خواب و خیال ہو چکی ہوں گی۔ یہاں امریکہ میں، تارکین ِوطن کی، بسربرد کیسے ہوتی ہے؟ میں نے مری مری آواز میں بتانا شروع کیا کہ زن بچہ کولھو میں پِلوانا، پرانا محاورہ تھا۔ اب ہر ایک، کیا مرد اور کیا زن، کیا بوڑھے اور کیا بچے، سبھی کولھو کے بیل بنے ہوے ہیں۔ بیشتر خاندانوں میں، مرد اور عورت، دونوں کام کرتے ہیں اور اتنا کام کرتے ہیں کہ کئی کئی روز، بچوں سے دو چار منٹ سے زیادہ، بات بھی کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ بات آپ کے شعر طفل میں بْو آئے کیا، ماں باپ کے اطوار کی دودھ تو ڈبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی سے بھی، بہت آگے نکل چکی ہے۔ توازن اور اعتدال، جس پر ہمارے مذہب نے بہت زور دیا ہے، عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ وقت سے برکت ایسی اٹھی ہے کہ لگتا ہے، ایک ہی سِلک میں سارے دن اور ساری راتیں، پروئی ہوئی ہیں۔ بہرحال، غنیمت ہے کہ خدا کے نام لیوا، آج بھی موجود ہیں۔ ماں باپ کا احترام، بے تعلیموں میں زیادہ ہے اور تعلیم یافتوں میں کم! ہنس کر بولے، اسی لیے کہا تھا ہم ایسی کْل کتابیں قابل ِضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بچے، باپ کو خبطی سمجھتے ہیں! پاکستان کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کر کے انہوں نے رخصت چاہی۔ میں نے گزارش کی کہ میرا سلام حضرت ِعلامہ اور جناح صاحب کی خدمت میں پہنچا دیجیے گا۔ اس پر وہ فورا بولے۔ بھئی یہ کام آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے تعجب سے استفسار کیا۔ وہ کیسے؟ کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ ہی آے تھے۔دل یہ سن کر مسرور ہو گیا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے کہا کہ حضرت! اب آپ سے دوبارہ مِلنا کب ہو گا؟ جواب نہ ملا۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ مگر وہاں اب کون تھا؟ ملاقات اچھی خاصی کھنچی تھی لیکن تشنگی کا احساس ہونے لگا۔ میں دل ہی دل میں، شکر کرتا ہوا پلٹا کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم ع راہ تو مجھ کو دکھا دی خضر نے!