پاکستان بھر میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ 12 کروڑ 79 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹروں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں کے لئے اپنے حق کا استعمال کیا۔ووٹروں نے 17 ہزار 758 امیدواروں میں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کیا ۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے تشکیل دیئے گئے۔سن 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل جنرل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ25 ویں آئینی ترمیم ہے جس کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔یوںقومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔معمول کے مطابق بعض علاقوں میں پولنگ عملے کی سستی، پولنگ تاخیر سے شروع ہونے اور لڑائی جھگڑے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ہر الیکشن میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن حالیہ انتخابات میں کئی معاملات پر عوامی تشویش بجا دکھائی دی۔الیکشن کمیشن نے وعدہ کر رکھا تھا کہ الیکشن کے دن انٹرنیٹ سروس بند نہیں کی جائے گی۔انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی پورے ملک میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن، اداروں اور عدلیہ سے درخواست کی کہ انٹرنیٹ سروس فوری بحال کی جائے۔انٹرنیٹ سروس کی فراہمی بنیادی انسانی حقوق اور اطلاعات تک رسائی کے قانونی حق کا تقاضا تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سروس معطل کی گئی جبکہ اعتراض کرنے والی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی رائے میں پولنگ سٹیشنوں کی لوکیشن جاننے، سواری منگوانے،دھاندلی کی بر وقت اطلاع کسی مجاز اتھارٹی تک پہنچانے اور امن و امان سے متعلق اطلاع دینے کے لئے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی اشد ضرورت ہوتی ہے،اس کے علاوہ باہمی رابطے کے لئے بھی فون اور انٹرنیٹ سروس ضروری ہے۔الیکشن کے روز یہ سروس معطل ہونے سے ان تمام امور میں مسائل پیدا ہوئے ۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں انتخابات کا انعقاد شکوک و شبہات کا شکار رہا ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد ، پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی بری کارکردگی ، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کا الیکشن کرانے سے گریز، آئنی مدت میں الیکشن کا نہ ہونا، تاریخ کی طویل ترین مدیت کی نگران حکومت اور اس کے اختیارات بتاتے تھے کہ بین الاقوامی و قومی حالات میں ایسی گرہیں پڑ چکی ہیں جن کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں عدلیہ کی طرف سے کئی احکامات دیئے گئے جن کی تعمیل میں لیت و لعل دکھائی دیا۔ممکن ہے الیکشن کمیشن کے پاس کچھ ناگفتنی وجوہات ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ اس تاخیر نے الیکشن کے متعلق آئینی احکامات کی ساکھ کو خراب کیا۔انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ در اصل یہی وہ خطرہ تھا جس کی وجہ سے پر امن انتخاب مشکل دکھائی دیتا تھا۔الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان میں قلعہ سیف اللہ اور پشین کے علاقوں میں انتخابی دفاتر کے باہر بم دھماکے کئے گئے۔الیکشن کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے حملے میں پانچ پولیس اہلکار شہید اور دو زخمی ہوئے ۔ لرائی جھگڑے کے واقعات کے دوران کوٹ ادو میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے ،ان میں سے کچھ کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ملتان کے علاقے کریم ٹاون میں جھگڑا ہوا ، کئی زخمی ہوئے۔بڈابیر پشاور میں دو گروپوں کے مابین لڑائی میں متعدد زخمی ہوئے۔ایسے اور بھی کئی واقعات ہوئے ۔ سیاسی اختلاف کو جس طرح اشتعال میں ڈھال دیا گیا ہے ایسے واقعات ہونا قدرتی بات تھی۔جنہیں افسوسناک کہا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ابتخابی انتظامات کو الیکشن کمیشن کی صوابدید قرار دیا اور عزم ظاہر کیا کہ جب کہیں فوج کی ضرورت پڑی وہ اپنی خدمات کے ساتھ حاضر ہو گی۔الیکشن کے روز پاک فوج کے جوان پولنگ سٹیشنوں کے باہر تعینات رہے۔ان کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو سہولت رہی۔ملک کے تمام علاقوں میں ووٹروں نے انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا۔خیبر پختونخوا، پنجاب،سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں شہریوں نے اپنا حق رائے دہی جوش و خروش سے استعمال کیا۔ووٹنگ کے عمل میں عوامی شرکت اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام ابھی جمہوری نظام سے مایوس نہیں ہوئے، وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ان کے مسائل حل کرے، منتخب حکومت معاشی بحالی اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔سب سے ضروری امر یہ کہ اداروں کے مابین معاشی بحالی، گڈ گورننس اور سیاسی استحکام کے متعلق اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ایسا نہ ہونے کی صورت میں انتخابات ایک مشق بیکار بن کر رہ جائیں گے۔