میں اور بانو بے اختیار کھڑی ہوچکی تھیں جب ان دونوں میں سے کسی نے ہمیں وارننگ دی تھی ۔ میں لکھ چکی ہوں کہ میں نے اس وقت ایک پل بھی ضائع نہیں کیا تھا ۔ میں پیچھے کی طرف گری تھی ۔میرے پیچھے گدیلی کرسی تھی ۔ میری گردن اسی سے ٹکی کیونکہ گرتے وقت میں نے اپنا توازن نہیں کھویا تھا اس لیے میری گردن پر چوٹ نہیں لگی ۔ گرتے ہوئے میں نے اپنی ٹانگیں پھیلا دی تھیں ۔ ان دونوں ہی نے مجھ پر فائر جھونک مارے تھے ۔ دونوں گولیاں میرے اوپر سے گزر کر ایک کھڑکی کی گرل سے جا ٹکرائی تھیں اور جس وقت وہ گولیاں میرے اوپر سے گزری تھیں ، میں فرش پر اتنی تیزی سے آگے پھسلتی چلی گئی تھی کہ دو سیکنڈ میں میرے دونوں پیر ان دونوں آدمیوں کی ایک ایک پنڈلی سے جا ٹکرائے تھے ۔ میں اونچی ایڑی کے سینڈل پہنے ہوئے تھی ۔ ان سینڈلوں کی ایڑیوں نے ان کی پنڈلیوں پر قیامت برپا کردی ہوگی ۔ پنڈلی کی ہڈی پر لگنے والی ضرب انسان کے سارے جسم میں ٹیس پھیلادیتی ہے ۔ ان دونوں کے منہ سے جھٹکے دار کراہیں نکلیں اور وہ آگے کی طرف اس طرح گرے کہ ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب تھا۔ میں جتنی تیزی سے پھسلی تھی ، اس سے زیادہ رفتارکے ساتھ کولھوں کے بل اٹھ بھی گئی ۔ میرے دائیں ہاتھ کی کہنی ہتھوڑی کی طرح اس آدی کی ریڑھ کی ہڈی پر پڑی جو میری دائیں جانب گرا تھا ۔ اس کے منہ سے ایک کرخت چیخ نکل گئی ۔یہی میں نے بائیں جانب گرنے والے کے ساتھ کرنا چاہا تھا لیکن اس نے بڑی پھرتی سے کروٹ لے لی ۔ میری کہنی فرش سے ٹکرائی اور تکلیف کی ایک لہر میرے جسم کے روئیں روئیں میں پھیلتی چلی گئی ۔وہ دونوں گرے تھے تو ان کے ریوالور بھی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پر ادھر ادھر پھسل گئے تھے ۔ جو آدمی میری کہنی کی ضرب سے محفوظ رہا تھا ، وہ پھرتی سے اٹھ بھی گیا اور اپنے ریوالور کی طرف جھپٹا ۔ اس کا ہاتھ ریوالور کے دستے سے بہ مشکل چھ سات انچ کے فاصلے پر تھا کہ ایک فائر ہوا ۔ گولی دیوار سے ٹکرائی تو چنگاریاں پھوٹیں اور ریوالور اچھل کر دیوار سے جا ٹکرایا ۔ بانو کے ہاتھ میں دبے ہوئے ریوالور کی نال سے دھوئیں کی ایک پتلی سی لکیر فضا میں پھیل چکی تھی ۔ ریوالور پر جھپٹنے والا جہاں تھا ، وہیں نہ صرف ساکت کھڑا رہ گیا بلکہ اس نے اپنے ہاتھ بھی اوپر اٹھادیئے ۔ وہ بانو کے ریوالور کی زد پر تھا ۔ اس کا ساتھی فرش پر بے حس و حرکت پڑا رہ گیا ۔ مجھے یقین تھا کہ میری کہنی کی ضرب سے اس اس کا ایک آدھ مہرہ تڑخ چکا ہوگا ۔ وہ تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوسکی تھی اور وہ بے ہوش ہوگیا تھا ۔ میں اپنی کہنی سہلاتی ہوئی کھڑی ہوگئی ۔ ملازمہ دیوار سے ٹکی خوف سے کانپ رہی تھی ۔ ’’شاباش صدف۔‘‘ بانو نے مجھ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔’’ کمال کردیا تم نے اس وقت! اب اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر باندھ دو ، باندھنے کے لیے اسی کی ٹائی اتارو اس کے گلے سے ، بلکہ پیر بھی باندھ دو ، اس کا دوپٹا لے لو۔‘‘بانو نے آنکھوں سے ملازمہ کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ ملازمہ نے خود ہی اپنا دوپٹا اتارا اور دوڑ کر مجھے دے دیا ۔ اس کی سانسیں بہت تیز چل رہی تھیں اور چہرے کا رنگ بھی اڑا اڑا سا تھا ۔ بانو کے ریوالور کی زد پر کھڑا ہوا آدمی جیکٹ پہنے ہوئے تھا جس کے ساتھ اس نے ٹائی بھی باندھ رکھی تھی ، میں نے اس کے عقب میں جاکر اس کی ٹائی اتارلی۔ ’’ہاتھ پیچھے لا۔‘‘ میں نے ٹائی اتار نے کے بعد ڈانٹ کر کہا۔ ’’گڈ! تم نے اس طرح بولنا بھی سیکھ لیا !‘‘ بانو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ امڈ آئی تھی ۔ ’’یہ دونوں گھر میں کیسے آئے ؟‘‘ بانو نے ملازمہ سے پوچھا ‘ پھر جیسے انہیں اچانک گھر کی باقی ملازمائوں کاخیال آیا۔انھوں نے ان کے بارے میں پوچھا اور کہا ۔’’فائر کی آواز تو سنی ہوگی سب نے ؟‘‘ ’’سب کچن میں بندھی پڑی ہیں ۔‘‘ ملازمہ نے جواب دیا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔اسی سے مجھے معلوم ہوا کہ جس وقت میں وہاں پہنچی تھی ، چوکی دار ملازمہ نے پھاٹک بند کرنے میں ذرا سی تاخیر کی تھی اور ان دونوں کو اندر آنے کا موقع مل گیا تھا ۔ مجھے یاد نہیں ، میں نے پہلے بھی یہ ذکر کیا ہے یانہیں کہ بانو کے گھر میں لڑکیاں یا عورتیں ہی ملازمت کرتی تھیں ۔ کوئی مرد ملازم میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ۔ چوکی داری کے لیے وہ پولیس سے ریٹائر ہونے والی کسی توانا عورت کو رکھتی تھیں لیکن توانا عورت بھی کیا کرے جب پھاٹک بند کرتے وقت ریوالور کی نال اس کے سر سے آلگے۔ پھاٹک بند کرنے والی کے بعد ان دونوں نے باقی چار ملازمائوں کو بھی قبضے میں کرلیا تھا ۔ یہ ساری کارروائی انھوں نے اس وقت کی تھی جب بانو مجھے برآمد ے سے اپنی خواب گاہ کی طرف لے جارہی تھیں ۔ اس وقت نہ تو خود ان کی نظر پھاٹک پر تھی ، نہ وہ اسکرین دیکھ رہی تھیں جس پر پھاٹک نظر آرہا تھا ۔ ان دونوں نے سب ملازمائوں سے بانو کے معمولات کے بارے میں پوچھا تھا ۔ کھانا پکانے والی اتنی بد حواس ہوگئی تھی کہ اس نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ بانو آج ذرا جلدی کھانا کھائیں گی اور کھانا انھوں نے اپنے کمرے ہی میں منگوایا ہے ۔ یہاں تک بتادیا تھا کہ انھوں نے کھانا کس وقت منگوایا ہے ۔ اس طرح ان دونوں کو موقع مل گیا کہ وہ بانو پر ان کی بے خبری میں ہاتھ ڈال سکیں ۔یہ بات دوسری ہے کہ وہ بانو کی بے خبری سے فائدہ نہیں اٹھاسکے ۔ ’’تلاشی لو اس کی ۔ ‘‘بانو نے مجھ سے اس وقت کہا جب میں جیکٹ والے کے ہاتھ پیر باندھ چکی تھی ۔ وہ ایک طرف پڑا ہوا تھا ۔ اس کے چہرے پر خوف کی کوئی علامت نہیں تھی ۔ اس کو اتنا ’’ بے پروا‘‘ دیکھ کر مجھے اتنا غصہ آیا کہ اس کی تلاشی لیتے وقت میں نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کردیا۔ ’’وہ جو کچن میں پڑی ہیں ، انہیں تو کھولو جاکر ۔‘‘ بانو نے ملازمہ سے کہا ۔’’ یہ ٹرالی لیتی جائو ۔سب کچھ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا ۔‘‘ ملازمہ ٹرالی لے کر جانے لگی ۔ میں جلدی سے بولی ۔’’اس سے یہ تو کہہ دیں کہ آس پاس رہنے والوں میں سے کسی کو کچھ نہ بتایا جائے ۔ ‘‘ ’’اس کی فکر نہ کرو۔سب میری تربیت یافتہ ہیں ۔‘‘بانو نے جواب دیا اور بے ہوش آدمی کی تلاشی لینے لگیں ۔ ’’مجھے تو اس کے پاس سے کوئی خاص چیز نہیں ملی ۔ ‘‘میں نے جیکٹ والے کی تلاشی لینے کے بعد کہا ۔ بانو نے سر ہلانے پر اکتفا کی ، پھر اپنے موبائل پر کسی کو ہدایت کی ۔’’یہاں سے دو آدمیوں کو لے جا کر اولڈ ہائوس میں قید کرنا ہے ۔ ان میں ایک زخمی ہے ۔ اس کی جو دیکھ بھال کی جاسکے ، کی جائے ۔ دوسرے کی زبان کھلوانا ہے ۔‘‘ کسی ’’اولڈ ہائوس ‘‘ کا نام میرے سامنے پہلی بار آیا تھا ۔ فون پر بات ختم کرنے کے بعد بانو نے مجھ سے کہا ۔ ’’تمھیں کوئی خاص چیز نہیں ملی تلاشی میں لیکن مجھے یہ ملا ہے ۔ ‘‘ انھوں نے ایک کارڈ میری طرف بڑھا دیا ۔ وہ شناختی کارڈ تھا جس پر اس شخص کے گھر کا پتا جھنگ کے ایک علاقے کا تھا ۔ کیا صدف جھنگ روانہ ہوگئی ؟ کل کے اخبار میں ملاحظہ فرمائیں! ٭٭