غزہ کی اِکتالیس کلومیٹر لمبی اور چھ سے بارہ کلومیٹر کے درمیان چوڑی پٹی پر آباد بیس لاکھ معصوم مسلمانوں پر قیامت ِ صغری ٰ کے مناظر دیکھ کر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔بظاہر صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کا یہ سَیل ِ رَواں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ مگر دَر حقیقت یہ مغربی سامراج کا اپنی تہذیبی برتری کا اندازِ اظہار ہے۔ مغرب ہر صْورت ’اِسلامی تہذیب‘ پر اپنی ’مَغربی تہذیب‘ کی برتری چاہتا ہے۔ یہ صدیوں کی مْسافت پر مْحیط جنگ ِ ستم ہے جو کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ چونکہ دْنیا جِدت کی حِدت میں پِگھل رہی ہے۔ اِنسانی لِہجوں میں مادِیت پَرستی کا عْنصر نْمایاں ہے۔ جذباتِ انسانی پر جدید تعمیر و ترقی اور مادہ پرستی غالب آچْکی ہے۔ خْونِ اِنساں سستا جبکہ اِنسانی پہناوا مہنگا ہوچکا ہے۔ دْنیا کے کئی علاقوں میں آدمی کی جان کلاشنکوف کی ایک گولی سے بھی سستی ہوچکی ہے۔کانگو، جنوبی سوڈان، غَزہ، فَلسطِین، شام میں کئی اَدوار میں انسانی جان کی قیمت بَندوق کی ایک گولی سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔طاقت اپنا اِظہار چاہتی ہے۔ طاقت کا یہ اظہار ہر دورِتہذیب میں مختلف رہا ہے۔ مقدونیہ کے سِکندر نے دْنیا میں تباہی و بربادی کے ذریعے اپنی طاقت کا اِظہار کیا۔منگولوں نے ایک تہائی انسانی آبادی کو زیر ِ زمین دفن کرکے اپنی وحشت و بربریت کا مظاہر ہ کیا۔ سلطنت ِ عثمانیہ کے تْرک سْلطانوں نے قلم و تلوار دْونوں سے اپنی قوت کا لوہا منوایا۔ ہندوِستان کے مْغل بادشاہوں نے فن و حَرب سے اپنی طاقت کو دنیا کے سامنے رکھا۔ افغانستان کے سرداروں نے زْورِ بازو کے بل بوتے پر ہند وِ ستان کو فتح کیا۔ چین نے ہمیشہ سے پر اَمن طریقوں سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ عہد ِ موجود میں دنیا بظاہر تین دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ مغربی، مشرقی اور اسلامی بلاک ہے۔مغربی بلاک کی امریکہ، مشرقی بلاک کی روس جبکہ اسلامی بلاک کی رہنمائی سعودی عرب اور ترکیہ کررہا ہے۔ مغرب صدیوں سے عیسایت عقیدے کی بنیاد پر خود کو مغربی تہذیب کا نام دیتا ہے جبکہ مشرق عقیدے کی بجائے مشرقی روایات، تمدن، رسوم و رواج کی بنیاد پر اپنی تہذیب کا دفا ع کرتا ہے۔ اِسلام ہمیشہ سے وحدانیت اور اتحاد کا تصور دیتا آیا ہے۔ مغرب کو اسلام کے اِس اجتماعیت کے تصور سے خوف ہے۔ مغرب ہر صور ت میں اپنی تہذیبی برتری کو منوانا چاہتا ہے جبکہ مشرق اپنی تہذیبی روایات کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔اسلام کا تصور آفاقی ہے جو تسلیم کرے وہ اتحاد کی لڑی میں پَرو لیا جاتا ہے اور اْمت ِ واحدہ کے دائرے میں آجاتا ہے۔ اَب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مغرب عقیدہ ِ عیسایت کی بجائے Religion Civilکو اپنا عقیدہ تسلیم کرچکا ہے۔ یوں عقید ہِ عیسایت کو نشاتہ ثانیہ کے ساتھ ہی مغرب ویٹی کن سٹی تک محدود کرچکا ہے جبکہ مذہب ہر عیسائی شہری کا انفرادی عقیدہ بن چکا ہے۔ مغرب اِس نقطہ ِ نظر سے انفرادی زندگی جینے کی عادت ڈال چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں اجتماعیت یا اجتماعی زندگی کا عنصر کلی طور پر غائب ہوچکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کینیڈا کے ایک فلاسفر اور معلم مارشل میکلوہن نے اپنی کتاب ’میڈیا کو سمجھنا: اِنسان کی وْسعتیں‘ میں دنیا کے متعلق ’گلوبل ویلیج‘ کا تصور دیا اور ٹیلی ویژن کی ایجاد کی بنیاد پر ایک نظریہ پیش کیا کہ دنیا گلوبل ویلج کا رْو پ دھار چکی ہے۔ یوں ٹیلی ویژن نے کچھ عرصہ تک امریکی اور دیگر ملکوں کے شہریوں کو آپس میں جوڑ کر اجتماعی معاشرے کی شکل ضرور دے دی تھی مگر سوشل میڈیا کی آمد نے دوبارہ مغربی طرززندگی کو انفرادی ڈھانچے میں ڈھال دیا ہے۔ صورتحال اِس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ مشرق کو اپنی تہذیبی برتری کا خبط نہیں جبکہ مغرب ہر حال میں اپنی تہذیبی برتری کے بخار میں مْبتلا رہنا چاہتا ہے۔مشرقی تہذیب نے روزِ اَزل سے اپنی معیشت کی بنیاد تجارت، فن اور زراعت کے ستونوں پہ رکھی ہے۔ مشرقی تہذیب میں کئی ممالک کے باسیوں کا عقیدہ مختلف مذاہب کی بنیاد پہ قائم ہے جبکہ عقیدہ کی بنیاد پر تہذیبی برتری قائم کرنا تقسیم ِ ہند کے بعد بھارت کا ایجنڈہ ضرور رہا ہے مگر کلی طور پر مشرق نے کبھی بھی دنیا پر تہذیبی برتری کا خیال دل میں نہیں لایا۔ جبکہ مغربی تہذیب کی بنیاد روزِ ازل سے فن ِ حرب اور سامانِ حَرب کی خریدو فروخت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد ِ موجود میں مغرب اپنی معیشت کی طاقت کو اسلحہ کی خرید و فروخت پہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ دْنیا میں ہر وقت جنگ و جدل کا ماحول بنا رہے۔ جنگ جاری رہے گی تب ہی اسلحہ کی ڈیمانڈ اور سپلائی جاری رہے گی۔ مغرب کو اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کوئی مْسلمان مر رہا ہے، ہندو، عیسائی یا یہودی اْسے محض اپنا اسلحہ بیچنا ہے اور اَسلحے کے زور پہ اپنی تہذیبی برتری کو قائم رکھنا ہے۔ غزہ میں جاری یکطرفہ جنگ بھی اْسی تہذیبی برتری کے خمار کی ایک کڑی ہے۔ مغرب کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ غزہ میں بیس لاکھ معصوم مسلمان اپنی زندگی کی جنگ ہار رہے ہیں، بچے تڑپ ٹرپ کر آخری سانسیں لے رہے ہیں، بزرگ و خواتین آخری سسکیاں لے رہی ہیں، اْسے ہر حال میں مشرق ِ وسطیٰ میں ایک ایسا مہرہ چاہئے جو ہر حال میں مغربی تہذیبی کا پرچم اْٹھائے رکھے۔ مشرق ِ وسطیٰ میں شاید ہی کوئی مسلمان ملک ایسا ہو جو مغرب کے وار سے محفوظ رہا ہو۔ اب ایک غیر مسلم ملک اسرائیل کی باری ہے۔ صہیونی ریاست مغرب کی تہذیبی برتری کے خیالِ خام کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی آڑ میں اپنی بقاء کو دوام اور اپنی سلطنت کو وسعت دینا چاہتی ہے۔ مغرب کیلئے غزہ زمین کا محض ایک ٹکڑا نہیں بلکہ پورے مشرق ِ وسطیٰ میں ’اسلامی تہذیب‘ کے گڑھ پہ مشتمل ایک بلاک ہے جسے اپنے دفاع کیلئے مغربی اسلحہ خریدنے پہ مجبور کیا جائے گامگر اِس دوڑ میں مغربی تہذیب اپنی روایات اور رسوم و رواج کا پھْن پھیلائے مشرق ِ وسطیٰ پہ غالب آنے کی پوری کوشش کرے گی۔ اسلام چونکہ امن، محبت اور یگانگت کا درس دیتا ہے جو مغربی تہذیبی روایات کے خلاف ہے۔کیونکہ امن میں جنگ نہیں ہوگی اور جنگ نہ ہوئی تو اسلحہ نہیں بِکے گا۔