اہداف تک پہنچنے اور کامیابی کے حصول کے لیے سادہ سا اصول تو یہی ہے کہ معمول کے ٹارگٹ اور ہدف کے لیے معمول کی محنت اور کوشش کافی ہوسکتی ھے اور اگر آپ غیر معمولی کامیابی چاہتے ہیں، تو اس کے لیے پھر آپ کو غیر معمولی محنت اور توانائی صرف کرنا ہوگی۔ با ب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰؓ نے بھی شایدیہی فرمایا تھا کہ کامیابی اگر محض خواہشات سے حاصل ہوتی تو دنیا کا کوئی آدمی ناکام نہ ہوتا۔ بہت سی احادیث اور فرامین میں بھی ایسی حکمت بر مبنی باتیں ہیں ،جن کو اپنا کر زندگی کی راہیں روشن اور پْر نور کی جاسکتی ہیں۔ جیساکہ فرمان ہے جو کوشش کرے گا، اس کو اس کی کوشش کا پھل ضرور ملے گا اور ہر کوشش کرنے والے کو کچھ نہ کچھ ملتا ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ کوشش کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کوشش فرض کی ہے۔ "کامیابی" کے حوالے سے یحییٰ بر مکی کا ایک بڑا معروف قول ہے کہ کامیابی کا دارومدار آپ کی محنت یا دوسروں کی جہالت پر ہے۔ جو اچھی بات سنو، اس کو لکھ لو، جو لکھو اسے یاد کرلو، اور جو یاد رہے اسے بیان کرو۔ ابن ِخلدون نے شہرہ آفاق مقدمہ ابنِ خلدون میں ایک عجیب و غریب تفسیاتی راز کا ا نکشاف کیا کہ مغلوب اور مفتوح قومیں بالعموم فاتح اور غالب قوموں کی تقلید اْن کی خوبیوں میں نہیں کرتی بلکہ کمزوریوں، خامیوں اور برائیوں میں کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خوبیوں میں تقلید کرانے کے لیے عزم وہمت درکار ہوتی ہے اور ایسا حوصلہ مرغوب اور مفتوح لوگوں میں نہیں ہوتا۔ البتہ ان کے فیشن، اسلوب، اسٹائل اور بری رسوم و روایات کو اپنانے اور اْن کی نقالی کرنے میں کوئی توانائی صرف نہیں ہوتی، اور اس سے وہ خود کو یہ مغالطہ اور فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ افراد اور اقوام کی تقلید سے وہ شاہ کلید اْن کے ہاتھ لگ گئی جائیگی، جس کے سبب وہ عروج اور بلندی تک پہنچے۔ حکیم الا مت علامہ اقبالؒ نے اس سے بھی بڑھ کر فرمایا کہ قوی انسان ماحول کو تخلیق کرتا اور کمزور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مستغرق رہتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک اور حدیث نے ذہن کو روشن کیا کہ جب آنحضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوچھا گیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے ،توفرمایا جس میں دوام ہو، خواہ وہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی وہ کا م جو پابند ی کے ساتھ مستقل کیا جائے۔ آرنلڈ نے اپنی ایک مشہور نظم میں، اِس حوالے سے تین طبقات کی نشاندہی کی، اس نے کہا کہ دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں ایک وہ جو خوب کھاتے، پیتے، سوتے اور تمام عمر زندگی کا کوئی مقصد متعین کیے بغیر، زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو بھر پور زندگی گزارتے، دولت کماتے، صحت کا خیال رکھتے اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتے، اپنی سوچ، فکر اور وسائل کو اپنی ذات کی بہتری اور فیملی کی ترقی کے لیے صرف کرتے ہوئے، تمام عمر اسی میں گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کے لیے جیتے ہیں، اپنے ادارے، اپنے ملک اور اپنی کمیونٹی کو آگے لے جانے کی فکر میں سرگرداں اور کوشاں رہتے ہیں، یہی لوگ ہیں جو فیض بخش ہوتے ہیں۔ سوسائٹی جن کو ہمیشہ یاد رکھتی اور دنیا اْن کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ زندگی مسلسل آگے بڑھنے اور جہدمسلسل سے عبارت ہے۔ نطشے سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انسانی زندگی کا عظیم ترین لمحہ کونسا ہے، تو اس نے کہا تھا کہ وہ لمحہ--- جب تمہاری سب سے بڑی کامیابی، تمہاری سب سے بڑی آرزو، تمہاری سب سے بڑی منزل، جب تم اس کو سَرکر لو، تو وہ تمہیں ہیچ لگنے لگے اور تم اپنی پرواز کے لیے اس سے بڑی منزل اور اس سے وسیع افق کے لیے مستعد ہوجائو۔ اسی طرح ایک مغربی مفکر نے کہا تھا کہ ہر کامیابی کے ساتھ اس کی قیمت کاایک ٹیگ اور رسیدلگی ہوتی ہے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت، صبر، قربانی، یقین اور برداشت کی صورت میں یہ قیمت چکا کر، اپنی منزل سَر کر لیتے ہو یا تساہل، بے یقینی، بے صبری اورعدم برادشت سے ناکامی حاصل کرتے ہو، آدمی اسی معیار تک رسائی کا اہل ہے جس سطح کی وہ قیمت ادا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ آسکر وائلڈ نے خوبصورت بات کی ، جو ہمیں اکثر مختلف فرامین میں مختلف الفاظ کے ساتھ راہنمائی کے لیے اپنے مشاہیر سے بھی دستیاب ہوتی ہے، اس نے کہا تھا کہ اگر کسی کام کی تکمیل کے بعد تمہیں طمانیت اور خوشی میسر آئے تو سمجھو تم نے اخلاقی فریضہ ادا کردیا اور اگر کام کرنے کے بعد طبیعت بوجھل اور کوفت محسوس ہو، توجان لو کہ تم نے ضرور کوئی اخلاقی حد پائمال کی ہے۔ سموئیل ٹیلر کی عمدہ بات کہ زندگی میں خوش ہونا، نیک ہونے کے بغیر ممکن نہیں اور نیکی کی ابتدا اور ابجد یہ ہے کہ والدین کے اطاعت گزار رہو اور ان سے محبت کرو۔ ایسے نوجوان جو اپنی زندگی کے ابتدائی سال ، جو پڑھنے اور سیکھنے کے ہوتے ہیں، ان کو ضائع کردیتے ہیں اور پھر زندگی بھر در بدر رہتے ہیں ان کے لیے بالخصوص یہ لاطینی مقولہ کہ: " کسی کو موقع نہ دو کہ وہ تمہاری جوانی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ سکے "۔گویا زندگی کی تمکنت اور حیات کو باقار رکھنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غالباً یہ فرمان بھی حضرت علی المرتضیٰؓ کا ہے کہ جس میں نصیحت فرمائی تھی کہ کامیابی کے لیے اپنے راز کو اپنے سینے میں ایسے چھپاؤ جیسے تمہارے وجود میں شریانیں خون کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔ خلیل جبران نے کہا کہ مصائب وآلام کا مقابلہ کرنے سے تکلیف روح کوجو پہنچتی اور جسم جس مشقت سے گزرتا ہے، وہ شکست خورد گی کے آلام سے کہیں بہتر ہے۔ حضرت علی المر تضیٰؓ نے فرمایا: کہ اگر سو سائٹی اور معاشرے میں عزت اور اعزاز چاہو تو اپنے آپ کو ہر مجلس،ہر مقام، ہر بات ہر رائے اور ہر کام میں اپنے حقیقی مرتبے سے تھوڑا نیچے کر سکو،تو ضرور کر لو ۔ مطلب یہ کہ کسی تقریب میں جائو تو یہ خیال نہ کرو کہ صدارتی کرسی پر میں نے ہی بیٹھنا ہے۔یا محفل میں سب سے نمایاں پوزیشن پر مجھے ہی آراستہ ہونا چاہیے ۔ بلکہ اپنے میزبان کے لیے سہولت پیدا کرو اور جس مقام کے تم خود کو حقدار سمجھتے ہو اس سے ایک صف پیچھے بیٹھ جائو، جب تمہارا میزبان یا منتظم تمہیں خود آگے لے جائے گا تو وہ تمہارے لیے زیادہ اعزاز اور وقار کا باعث ہوگا۔ فرمایا اپنے درد کی شکایت ہر ایک سے نہ کرو، بلکہ اپنا زخم صرف اسی کو دیکھائو جو اس پر مرہم رکھ سکے ۔ ایک مقام پر اس سے بھی بڑھ کر فرمایا کہ جو تمہاری آنکھ میں چھپے سوال کو نہ جان سکے،اس کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کاکیا فائدہ۔باب مدینۃ ُ العلم کا کیا عمدہ فرمان یاد آیا کہ حاجت کے بَرنہ آنے کو سہ جانا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ کسی نااہل سے حاجت طلب کی جائے ۔ فرمایا دنیا جب کسی کی طرف رُخ کرتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں اسے اُدھا دے دیتی ہے ، اور جب اس سے رُخ پھیرتی ہے تو اُس کی اپنی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے ۔ برئرینڈرسل نے کہا کہ مشکلات انسان کی عقل کو اس طرح تیز بنادیتی ہیں جس طرح محنت کرنے سے انسان کے جسم میں پھرتی آجاتی ہے ۔ آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ میں اچھے کردار کے دوست اور بہترین دماغ کے دشمن منتخب کرتا ہوں ۔ بہر حال بات لمبی ہوگئی اور اصل مضمون اسی میں مدغم ہوگیا ، چلے جو ہوا ، وہ بھی اچھا ہی ہے ، یار زندہ ،صحبت باقی ۔