ہر گزرتے دن کے ساتھ غزہ میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں انسانی المیہ بڑھتا جا رہا ہے۔اسرائیلی وحشیوں نے غزا کے ہسپتال پر منگل کے روز بدترین بمباری کی یہ غزہ کا کرسچن ہسپتال ہے جس کا نام الاھلی بیپٹسٹ ہاسپٹل ہے۔موقع پر ہی 300 فلسطینی شہید ہو گئے مگر اب تک کی اطلاعات کے مطابق شہداء کی تعداد 800 تک پہنچ چکی ہے۔زیادہ وہی ہیں جو پہلے ہی بیمار اور زخمی تھے اور اپنا علاج کرانے کے لیے ہسپتال میں موجود تھے۔اور دوسرے جو ان کے تیمارداروں کی حیثیت سے ہسپتال میں موجود ہے ڈاکٹرز اور ہسپتال کا پیرا میڈیکل عملہ بھی شہید ہوا۔غزہ میں جہاں صورتحال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ جہاں الاھلی ہسپتال کام کر رہا تھا یہاں کچھ نہ کچھ سہولتیں موجود تھیں مریض لائے جا رہے تھے زخمی لائے جا رہے تھے اور ان کو دوائیں دی جا رہی تھی یہ بھی ایک جنگ کا ایک محاذ تھا۔ جہاں سفید کوٹوں میں ملبوس فلسطینی ڈاکٹرز مشکل ترین حالات میں اہنی ذمہ داریاں۔ ادا کررہے تھے۔ڈاکٹر ابو ستاح غزہ کے اسی ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینیئر ڈاکٹر ہیں انہوں نے بتایا کہ جس وقت بمباری ہوئی ہم اس وقت آپریشن روم میں کام کر رہے تھے۔وہ خود کے زندہ بچ جانے کو بھی معجزہ تصور کرتے ہیں کہوہ ان حالات میں زندہ رہے جب کہ ان کے آس پاساسرائیلی بارود نے ایک قیامت برپا کردی تھی۔لوگوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے انسانی خون اور عمارت کا ملبہ مل وحشت ناک دکھائی دیتا تھا۔ یہ انتہائی ہولناک منظر تھاغزہ میں صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے اسرائیل نے زمینی حملے کا بھی فیصلہ کر چکا ہے۔ اور لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں سے نکل جائیں۔ دنیا کے کرتا دھرتا بتائیں کہ فلسطینی اپنے گھروں سے نکل کر کہاں جائیں جبکہ وہ چاروں جانب سے محصور ہیں۔ ڈاکٹر احمد مغرابی غزہ کے النصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجن ہیں۔ ان کی ایک ویڈیو این بی سی نیوز کو موصول ہوئی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگی صورتحال ایسے ہے جیسے روزانہ زلزلہ آ رہا ہو اور کہتے کہتے ڈاکٹر احمد مغرابی سسکیوں سے رونے لگے اور کہا کہ میری تین سال کی بیٹی وہ بھی اس بمباری میں زخمی ہوگئی میرا دل دکھ سے بھرا ہے جی چاہتا ہے کہ زور زور سے چلاؤں۔امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر لیونارڈو را بنسٹن 25 سالوں سے یونیورسٹی میں وائلنس اگینسٹ میڈیکل فیسلٹیز ڈیورنگ وار ٹائم کا مضمون پڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتال پر مریضوں پر ہولناک بمباری اسرائیل کا ناقابل معافی جرم ہے۔ بین الاقوامی قانون بھی ہسپتالوں پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سانحہ انسانی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے۔ غزہ میں جہاں صورتحال صحت مند لوگوں کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے کی صاف پانی اور مناسب خوراک نہیں۔ بجلی کاٹ دی گئی ہے اور سروں پر اسرائیل بمبار طیارے موت بن کے منڈلا رہے ہیں۔ ان حالات میں غزہ کے ایک آپریشنل اسپتال کو تباہ کر دینا بہت بڑا جنگی جرم ہے۔جنگی جرم تصور بھی ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں کچھ نہ کچھ انصاف کی رمق باقی ہو۔یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل خود غزہ کے ہسپتال کو تباہ کرتا ہے اور الزام فلسطینیوں پر ڈال دیتا ہے۔اسرائیل دنیا کی آنکھوں میں جھوٹ کی دھول جھونک کر حقائق بدلنا چاہتا ہے۔غزا کے ہسپتال پر خود بمباری کر کے معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کا الزام الٹا حماس پر ڈال رہا ہے اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نینتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے غزہ کے ہسپتال پر بمباری نہیں کی بلکہ یہ بمباری غزہ کے اندر سے سے ہوئی ہے۔ "the barbaric terrorist in Gaza had attacked the hospital, not Israel military." اس سے بھی بڑی منافقت کا اظہار امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان سے ہوا۔ایک طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے جدید اسلحے سے لیس امریکی بحری بیڑے کی امداد ، تو دوسری طرف غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کی مذمت میں جو بائیڈن کا حد درجہ منافقانہ بیان "I was outraged and deeply saddened by the explosion at hospital" چہ خوب ! تم ہی کرتے ہو قتل کا ماتم۔۔تم ہی تیرو تفنگ بانٹتے ہو! کی پشت پناہ مغربی طاقتیں اور مغربی میڈیا چاہیں بھی تو اسرائیل۔ کی اس کھلی بربریت کو جھوٹے پراپیگنڈے اور منافقت سے بھرے تجزیوں کے پردے کے پیچھے چھپانے کی کوشش نہیں کر سکتا۔ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں ایک سائبر وار کی صورت ایک جنگ سوشل میڈیا پر بھی لڑی جارہی ہے۔سوشل میڈیا کی ہیش ٹیگ وار میں بھی اسرائیل بری طرح شکست کھا چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق فری پیلسٹائن ہیش ٹیگ لوگوں نے لاکھوں بار ہیش ٹیگ کیا جبکہ اس سائبر وار میں اسرائیل کے حق میں صرف دو لاکھ پیش ٹیگ سامنے آئے وہ بھی عام پبلک نے نہیں بلکہ اسرائیل کے سوشل میڈیا وار سیل سے جاری ہوئے۔ اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ ناقابل بیان نفرت غزہ کے نہتے محصورین پر قیامت ڈھا رہی ہے۔ اسپتال تک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سینکڑوں ننھے بچے اور مائیں اس میں شہید ہوئیں عالمی قانون کے مطابق۔ بھی یہ ایسا جنگی جرم ہے جو کبھی اور کسی صورت بھی معاف نہیں ہونا چاہیے۔لیکن کیا کریں کہ عالمی عدالتیں بھی انہی عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں جو جنگ کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں اور مظلوم انسانوں کے لہو کا تماشہ دیکھتے ہیں۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او نے اس پر افسوس کا منافقانہ سا اظہار کیا ہے اقوام متحدہ اور اس کے نام نہاد امن قائم کرنے والے اداروں کے کریڈٹ پر ایک بھی ایسا عمل نہیں کہ کہیں جنگ شروع ہونے پربروقت مداخلت سے جنگ بندی کروائی ہو۔امن قائم کرنے والے نام نہاد عالمی ادارے کا کردار اس شعرکے منافق مسیحا سے ملتا جلتا ہے ۔اذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر و ہ بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری انکھوں کو کیا ہوا۔