مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں:ہر بڑا تخلیق کار کسی حد تک پاگل ضرور ہوتا ہے ،یہ کیفیت اگر اس پر طاری نہ ہو تو شاید وہ تخلیق نہ کر سکے۔سب تو نہیں لیکن بہت سے ایسے بڑے تخلیق کار اور نامور لوگ گزرے ہیں، جو اپنی زندگی میں شدید ذہنی بیماریوں کا شکار بھی رہے اور اپنے میدان میں بے مثال کامیابیاں بھی سمٹتے رہے۔ ورجینیا وولف عظیم برطانوی ناول نگار، جس نے انسانی نفسیات اور مرد عورت کے درمیان تعلق اور زندگی سے وابستہ مسائل کو بہت باریک بین نگاہ سے دیکھا اور اسے اپنی تحریروں میں بیان کیا،نوعمری ہی سے بائی پولر ڈس آڈر اور شدید ڈیپریشن کا شکار رہی ۔ورجینیا وولف کے خاندان میں بھی ذہنی امراض موجود تھے۔اتنی کم عمری میں ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ورجینیا نوبرس تک اپنے سوتیلے بھائی کے جنسی استحصال کا نشانہ بنتی رہی۔وہ ایک creative geniusتھی۔اپنے اندر اٹھنے والے تخلیقی ابال کا اظہار آغاز میں وہ اپنی ڈائری میں کیا کرتی،بعد ازاں وہ ناول نگاری کی طرف آئی اور فکشن میں اپنے اندر کی آگ کو بیان کرتی رہی۔ذہنی بیماری کا کرب اس کے ساتھ رہا اور لکھاری کی حیثیت سے بھی وہ عظیم ناول تخلیق کرتی رہی۔ اس نے اپنی زندگی میں تین بار خودکشی کی کوشش کی، دو بار ناکام رہی ، تیسری بار وہ اپنے ہاتھوں زندگی ختم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ خودکشی سے پہلے ورجینیا نے دو الوداعیہ خط لکھے ایک اپنے شوہر لیونارڈو وولف کے نام۔ دوسرا خط اپنی بہن ونیسا کے نام ۔اپنے شوہر کے نام لکھے خط میں جو لکھا اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔ "میرے بہت پیارے ! مجھے یوں لگتا ہے ، جیسے میں پھر سے پاگل ہورہی ہوں ،مجھے لگتا ہے کہ ہم اکٹھے نہیں چل سکتے، یہ بہت خوفناک چیز ہے۔ مجھے آوازیں آنے لگی ہیں اور میں یکسو نہیں ہو پارہی۔میں اسوقت جو کچھ کرنے جا رہی ہوں، وہ بہترین ہے۔ تم نے مجھے زندگی کی بہترین خوشیاں دیں اور تم نے وہ کیا جو کر سکتے تھے، میں جو کچھ کرنے جارہی ہوں،وہ اس وقت بہترین فیصلہ ہے۔۔۔۔"ورجینیا وولف نے اپنا اوور کوٹ پہننا ،دریا کی سیر کو گئی اور اس میں چھلانگ لگادی یقینی موت کے لیے کوٹ کی جیبوں کو اس نے پہلے ہی پتھروں سے بھر رکھا تھا۔ دنیا ابراہم لنکن کو محض 16ویں امریکی صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مدبر سیاستدان اور دانشور کی حیثیت سے یاد رکھتی ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ابراہم لنکن بھی شدید ذہنی بیماری کا شکار رہے، ان کے ایک دوست نے خط میں لکھا کہ اس نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ ذہنی دباؤ میں کسی شخص کو نہیں دیکھا۔وہ اس ذہنی اذیت کے ہاتھوں اکثر بچوں کی طرح رویا کرتے۔بائی پولر ڈس آرڈر اور شیزوفرنیا کی بیماری ان کے خاندان میں موجود تھی، شاید یہ ذہنی بیماریاں، انہیں وراثت میں ملی ہوں۔ مصوری کی دنیا کا ایک ممتاز نام وین گاف جو اگرچہ خوشحال۔گھرانے میں پیدا ہوا ، مگر اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں اورحد سے بڑھی ہوئی حساسیت کی وجہ سے زندگی بھر میں شدید ذہنی بیماری کاشکار رہا۔صرف 37برس کی عمر میں آرٹ کے ناقابل فراموش شاہکار تخلیق کر کے دنیا سے چلا گیا ،اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وین گاف نے اپنی ذہنی بیماری کی اذیت سے تنگ آکر خودکشی کرلی تھی۔اس کی مصوری پر تحقیق کرنے والے آرٹ کے نقادوں گا آج بھی یہ پسندیدہ موضوع ہے ۔آیا بیسویں صدی کے اس عظیم مصور کی تخلیقات سے بھی اس کے ذہنی کرب کا اظہار ہوتا ہے یا نہیں۔ اردو ادب کے منفرد شاعر جون ایلیا اپنی حرکتوں اور ظاہری ہیئت سے ہی نارمل سے ہٹے ہوئے شخص دکھائی دیتے مگر یہی جون ایلیا ادب شاعری فلسفہ مذاہب عالم کا مطالعہ کرنے والے انتہائی عالم فاضل انسان تھے ،وہ اپنے والد کی طرح عربی اور سنسکرت کے بھی ماہر تھے ۔جون ایلیا تمام عمر ایک تخلیقی کرب میں مبتلا رہے جو ذہنی بیماری کی شکل میں ظاہر ہوا اپنی کتاب " شاید "کے دیباچے میں جان ایلیا نے خود لکھا کہ "1986 کا ذکر ہے ،میری حالت گزشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی ،میں نیم تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا رہتا تھا ۔ مجھے روشنی سے آوازوں سے اور لوگوں سے ڈر لگتا تھا۔میرا دماغ نہیں بھوبھل ہے، میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہیں" کس خوبصورت انداز میں جون ایلیا نے اپنی ذہنی بیماری اور تخلیق کرب بیان کیا۔ بیسویں صدی کے ممتاز امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوئے جو farewell to arms اورthe old man and the sea جیسے ناقابل فراموش ناولوں کے تخلیق کار ہیں، عمر کے ایک حصے میں پاگل پن کا شکار ہوگئے اگرچہ وہ ذہنی طور ہمیشہ سے ہی ایک غیرمتوازن شخص تھے ۔A man can be destroyed but not defeated.”جیسا پیغام دینے والا خود اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے شکست کھا کے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے ۔ ورجینیا وولف کی طرح جان نیش بھی نوجوانی سے ہی شیزوفرینیا کا شکار رہے۔ان پر پاگل پن کے شدید دورے پڑتے تھے اس کے باوجود ریاضی کے میدان میں ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں اور نوبل پرائز کے حقدار ٹھہرے یہ رمز قدرت ہی جانتی ہے کہ ایسے کری ایٹو جینس ایک طرف تو غیر معمولی ذہانت سے نوازے گئے اور دوسری طرف تمام عمر ذہنی بیماری کے کرب سے گزر کر اس تخلیقی ذہانت کی قیمت ادا کرتے رہے۔