وفاقی بجٹ کسی شور شرابے کے بغیر پاس ہو گیا۔ پن ڈراپ سائلنس تو خیر نہیں تھی لیکن بحیثیت مجموعی راوی نے بجٹ منظوری کے سارے مرحلے میں چین ہی چین لکھا بلکہ سکون ہی سکون لکھا۔ غنیمت ہے سکوت نہیں لکھا اور سکوت مرگ تو بالکل نہیں لکھا۔ شہباز شریف اور ان کے حامی ارکان قومی اسمبلی نے سخت تعمیری کردار ادا کیا۔’’سکون‘‘ پر غور فرمائیے‘ اس میں ’’ن‘‘ دراصل ن لیگ کا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی بجٹ کے بارے میں آج کے اخوان الصفا کا انفاق ہے کہ اس میں غریبوں کو اتنا ریلیف دیا گیا ہے کہ ماضی میں کسی نے نہیں دیا اور اس طرح عمران نے غریبوں کو خوشحال بنانے والا بجٹ دے کر ان کے دل جیت لئے ہیں۔ اب تو وہ دو تہائی اکثریت سے جیتیں گے۔ خیر‘ دوتہائی اکثریت تو جب کسی کو ملے گی تب ہی ملے گی‘ فی الوقت تو عوام کا دو تہائی وقت یہ سوچنے میں گزر جاتا ہے کہ کیا خریدیں اور کیا نہ خریدیں اور باقی ایک تہائی وقت یہ فیصلہ کرنے میں صرف ہو جاتا ہے کہ کل دیکھیں گے۔ دریں اثنا جون میں آٹے‘گھی ‘ چینی‘ بیکری‘ غرض کھانے پینے کی ہر شے کی قیمت میں تسلی بخش اضافہ ہو چکا ہے۔واضح رہے کہ تسلی بخش کا اشارہ حکومت کی طرف ہے۔دریں اثناء کے علاوہ یعنی علاوہ ازیں بجلی بھی مہنگی کر دی گئی ہے۔ حکومت نے بہرحال وفاقی وزیر خزانہ کی اس بات کی لاج رکھی کہ بجٹ میں بجلی مہنگی نہ ہو گی۔بجلی بجٹ کے بعد ہی مہنگی ہوئی۔یہاں تک کہ حکومت نے ایل این جی کی قیمت بھی نہیں بڑھائی اور بجٹ کا پورا احترام کیا۔ بجٹ پاس ہوتے ہی ایک ہفتے میں ایل این جی دوبارہ مہنگی ہوئی اور ہاں‘اس دوران میں دوائیں بھی معقول حد تک مہنگی ہوگئیں۔مطلب یہ کہ مزید معقول حد تک مہنگی۔احباب سے التجا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر بیمار پڑنے کی عادت سے چھٹکارا پا لیں۔ ورنہ دوائوں کی خرید کا بل نہیں چکا پائیں گے۔ حکومت نے تو ایئر پورٹ‘ موٹر وے اور شاہراہیں گروی رکھ کر اپنے دال دلیے کا بندوبست کر لیا‘آپ دوائیں خریدنے کے لئے کیا گروی رکھیں گے؟ ٭٭٭٭٭ سچ پوچھیے تو غریبوں اور لوئر مڈل کلاس والوں کے لئے ریلیف کے امکانات پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔رضا کارانہ روزہ رکھنا آسان کام نہیں۔ترغیب ضروری ہے۔ گن اٹھا کر ایک آدمی سے کہا گیا کہ کار سے لٹک جائو اور لٹکے رہو۔ پندرہ منٹ بعد اس کے اعصاب جواب دے گئے۔ وہ بولا‘ اب تو ہاتھ چھوٹا جا رہا ہے۔ گن والے نے ایک ہوائی فائر کیا‘ غریب مزید 15منٹ لٹکا رہا۔یہی کچھ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً آدھ گھنٹہ لٹکو‘ دس ہزار دوں گا‘ وہ لٹک جائے گا۔ یہاں ترغیب اور ترھیب سے معاملہ ماورا ہے۔ غریب کے پاس کھانے کو کچھ رہا ہی نہیں‘ روزہ رکھنا اس کی مجبوری بن گیا ہے۔ جملہ غربا اور لوئر مڈل کلاس والے اگر صائم الدھر بلکہ صائم الدّائم ہو جائیں تو انہیں دائمی ریلیف مل جائے گا اور بھئی‘ دل اس طرح جیتے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ منفی سوچ سے نجات پانا صحت مند زندگی کے ضروری ہے۔ پچھلے دنوں لوڈشیڈنگ پر لوگوں کے شکوے شکایات نے سماں باندھ دیا۔ جسے دیکھو‘رو رہا ہے اور ملاحیاں سنا رہا ہے۔یہ منفی سوچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عارضہ ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بھائی اگر بجلی جاتی ہے تو آتی بھی تو ہے۔بجلی جاتی تو آپ فریادوں اور کوسنوں پر اتر آتے ہیں‘ جب آتی ہے تو پھر دعائیں کیوں نہیں دیتے۔یوں کیوں نہیں کہتے کہ بجلی بھیج کر عمران خاں نے ہمارے دل جیت لئے۔ احسن اقبال کی بھی سنئے۔ فرماتے ہیں‘گرمیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ تو کبھی سنی ہی نہیں تھی۔ یہ کام تو تہتر سالوں میں پہلی بار ہوا۔ یعنی احسن اقبال نے بھی مثبت پہلو نظر انداز کر دیا۔73سال میں کوئی کام پہلی بار ہوا‘ یہی تو تبدیلی ہے۔کتنی ہی تبدیلیاں آ چکیں‘ کتنی ہی ایسی پائپ لائن میں ہیں۔ تبدیلی کا خیر مقدم کیجیے‘ مذاق مت اڑائیے صاحب۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ عالمی بنک نے قرضہ دینے کے لئے جو چھ شرطیں لگائی تھیں‘ وہ پاکستان نے مان لی ہیں۔ایسے موقع پر عام طور سے’’من و عن‘‘ کا سابقہ یا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں اس کی ضرورت نہیں۔یہاں ہر وعدہ من و عن ہی ہوتا ہے۔ چھ میں سے دو شرطیں دلچسپی کی حامل ہیں۔ایک یہ کہ پاکستان بجلی کے نرخ میں 1.90روپیہ کا اضافہ کرے گا یعنی لگ بھگ دو روپے یونٹ کا۔یعنی بجلی کا یونٹ اب بتیسّے سے نکل کر چالیسے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماشاء اللہ۔ دوسری شرط شہیدوں سے مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ شرط یہ ہے کہ بجلی کے گردشی قرضے میں کمی لائو۔ محترم عالمی بنک صاحب‘ ایں محال است۔پچھلے اڑھائی پونے تین برسوں میں پی ٹی آئی نے اتنی محنت شاقہ سے گردشی قرضوں کی مالیت میں2327ارب کا اضافہ کیا ہے جو بہت بڑا کارنامہ ہے۔آپ اس کارنامے کو دھندلانا چاہتے ہیں یعنی تبدیلی کے سفر کو رائیگاں بنانا چاہتے ہیں۔لاحول ولا…فرمائش کرنی ہے تو یہ کیجیے کہ اس میں مزید اضافہ کیجیے۔آخر ہم نے فرنس آئل درآمد کرنے والوں کا رانجھا بھی تو کسی طور راضی کرنا ہے۔ ٭٭٭٭٭