طویل غیر حاضری کی معذرت۔ ہوا یہ کہ پچھلے چند روز کی گرمی نے، چِیں بلوا دی۔ اور گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل کہاںکی رْباعی، کہاں کی غزل! بقول ِیوسفی، اس موسم میں چیل انڈا اور کراچی الیکٹرک کا لائن مین، ٹرانسفارمر چھوڑ جائے! اس دفعہ گرمیاں آئی دیر سے ہیں، لیکن موجودہ حدت اور شدت؟ الامان و الحفیظ! غضب خْدا کا، درجہ ء حرارت پینتالیس ڈگری سے اْوپر پہنچ گیا۔ ایسی گرمی کہ گر چشم سے نکل کے، ٹھہر جائے راہ میں پڑ جائیں لاکھ آبلے، پائے ِنگاہ میں ہر جگہ اے سی موجود ہیں، لیکن باہر کے ماحول کا احساس محو کیسے ہو؟ خیر، پھر ہْوا یہ کہ چند روز قبل بے گمان، اچانک تیز بارش ہونے لگی۔ ذرا ہی دیر میں، دھونتال مینہہ نے جل تھل کر دیا۔ اس تغیر نے دل پر بھی بڑا اثر کیا۔ سارا تکدر چھَٹ گیا، طبیعت ہری ہو گئی۔ انسانی کیفیات کا کچھ ٹھیک نہیں، گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشا۔ کبھی خارج کی کوئی بظاہر فرحت بخش شے، بْجھی ہوئی طبیعت کو اَور مضمحل کر جاتی ہے۔ اور کبھی محض ایک خیال، مزاج کی شگفتگی پر سان رکھ دیتا ہے اور خیال آفرینی کو پَر لگ جاتے ہیں۔ کیا خْوب شعر ہے اطہر نفیس کا خود اپنے ہی اندر سے اْبھرتا ہے وہ موسم جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر تعلیم کا موضوع ایسا ہے کہ جس پر لکھا تو بہت کچھ گیا ہے، مگر عام آدمی کو شرح ِصدر، ہو کر بھی نہیں ہوتا۔ جس طرح غذا، انسانی جسم پر براہ ِراست اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح تعلیم، اس کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ شنیدہ اثری دارد۔ اسی کے مصداق، آدمی جو کچھ پڑھتا ہے، دیکھتا ہے، برتتا ہے، اس کے گھٹ میں اْترتا جاتا ہے۔ کبھی محسوس اور کہیں غیر محسوس انداز میں۔ سوال یہ ہے کہ سب سے افضل تعلیم کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہر وہ تعلیم، جو اس کائنات کے بنانے والے کے نزدیک کرے۔ تمام تر سوجھ بوجھ بھی، اگر یہ بنیادی نکتہ کہ سب سے بہتر کیا ہے جو انساں کو کرنا چاہیے؟ موت کا خالق جو ہے، بس اْس پہ مرنا چاہیے نہ سْجھا سکے، تو حیف ہے ایسی عقل پر۔ دینا کو چار روزہ قرار دینے اور ترک ِدنیا کا درس دینے کے بجائے، یہ بات تعلیم کرنا ضروری ہے کہ نامہء اعمال کو نیکیوں سے کیوں کر بھرا جائے! خْدا کی خوشنودی، توحید کے اقرار کے بعد، سب سے زیادہ خدمت ِخلق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس واقفیت کے مقابلے میں، باقی سارے علم ہیچ ہیں۔ اسی کے بعد نمبر، دنیا کے دیگر علوم و فنون پر دسترس پانے کا آتا ہے۔ ہر وہ علم اور ہْنر جو خْدا سے بے نیاز کرے، یا جس کی پہلی ترجیح خْدا نہ ہو، ناقص ہے، مْضر ہے۔ اب ایک نظر، ارد گرد دوڑا جائیے۔ پہلی ترجیح کیا نظر آتی ہے؟ شیخ ِشیراز فرماتے ہیں۔ جہان اے برادر، نمانَد بِکَس دل اندر جہان آفرین بند و بَس یعنی، اے برادر! دنیا نہ کسی کی ہوئی ہے نہ ہو گی۔ تو پھر دِل، کیوں نہ دنیا کے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع ہو؟ خْدا کا اقرار، جب دِل میں راسخ ہو جائے گا تو ادبدا کر ہر قدم اسی کی جانب اْٹھے گا۔ خلق ِخْدا کو واقعی فیض رسانی، خْدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے کی جائے گی۔ پھر خدمت ِخلق کے نرے دعوے نہیں رہ جائیں گے۔ لیکن بنیادی شرط وہی ہے، جو اْوپر بیان ہو چکی۔ اس ایک کھْونٹے سے آدمی بندھا نہیں ہو گا، تو پھر ڈونڈاتا ہی رہے گا۔ یہاں طے کر لیا گیا ہے کہ ہر خرابی کا علاج، جدید تعلیم سے ناواقفیت ہے۔ ع بہر مرض کہ بنالد کسی، شراب دہند یہاں یہ دوسرا سوال اْٹھتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ انسانیت کو ایسا کیا فیض پہنچا رہے ہیں، کہ اسے حرف ِآخر سمجھ لیا جائے؟ اس بات سے ہم واقف ہیں کہ تاریخ میں بڑا جنگ و جدل، مذہب کی بنیاد پر ہوا ہے۔ مگر یہ اعلان ضروری ہے کہ اس سے زیادہ غارت گری پچھلے سو ڈیڑھ سو برس میں جدید تعلیم یافتہ کر گْزرے ہیں۔ اس خاکسار کی رائے میں، دونوں جگہ کمی خوف ِخْدا کی رہی۔ خْدا کی قربت پانے کے لیے، اس کی مخلوق کو مِٹاتے رہے۔ اور اب، یہ کام "انسانیت کی بقا" کے جھنڈے تلے ہو رہا ہے۔ خوف ِخْدا کی کمی، کیا گْل کھِلاتی ہے، اس کی دو مثالیں دیکھیے۔ سقوط ِڈھاکا کے بارے میں یہ بحث پچھلے اڑتالیس برس سے جاری ہے کہ اس کا اصل ذمے دار کون ہے؟ مجرم یا ملزم تین لوگ ہیں۔ یحییٰی خان، بھْٹو اور مجیب الرحمٰن۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ اس معاملے میں، مجرم ایک یا دو کو قرار دیا جاتا ہے اور تیسرے کو معذور یا مجبور سمجھ کر اس کی براء ت ثابت کی جاتی ہے۔ یہ بحث سرے سے غلط ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک، اس پوزیشن میں تھا کہ اگر صحیح کردار ادا کرتا تو مْلک نہ ٹْوٹتا، مگر وہی خوف ِخْدا کی کمی۔ ان تینوں کے پیش ِنظر صرف اپنی ناک تھی، جسے اونچا رکھنے کے لیے، پوری قوم کی ناک کٹوا دی گئی۔ ان تینوں حضرات کو جدید تعلیم پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود، اپنی ذات کے مقابلے میں، کروڑوں لوگوں کے مستقبل کو پس ِپْشت رکھا گیا۔ دوسری مثال جنگ ِعظیم کے غارت گروں کی ہے۔ یہ جنگ جاہلوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے مابین نہیں تھی۔ اس میں اْترنے والی بیشتر قومیں، جدید علوم و فنون سے آراستہ تھیں۔ اقتدار کی حرص نے، اس جنگ میں آٹھ کروڑ انسان قتل کرا دیے۔ کہنا یہ ہے کہ جدید تعلیم اور تہذیب، اس وقت تک ناقص رہے گی، جب تک خوف ِخْدا کی نکیل اسے نہیں ڈالی جائے گی۔ انسان سے بہتر تو وہ حیوان ہیں، خطرے کو بھانپتے ہی جن کی کَنوَتیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ انسان ہزار بار سزا پا کر بھی، گناہ کرنے پر پھر تْل جاتا ہے۔ جانوروں کو دوچار بار کی سرزنش ہمیشہ کے واسطے کافی ہوتی ہے۔ زمانے کی الٹ پھیر نے، ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا ہے اور پَست کو بالا۔ سیر کی ہانڈی میں سوا سیر پڑ گیا ہے اور نتیجتاً نئی تہذیب کے مْردے، تو زندہ ہیں تماشوں میں پْرانی وضع کے زندے، مگر مْردوں سے بدتر ہیں