چودھری چراغ دین میرے پرانے دوست ہیں۔ وہ مجھے پرانے دور کا آدمی کہتے ہیں اور میں انہیں آنے والے زمانے کا! یوں ہماری طبیعتوں اور نظریات میں بْعد ِزماں ہے۔ اور الحمدللہ کہ دونوں کے مابین بْعد ِمکاں بھی ہے! اصلا چونکہ دیہاتی ہیں، آدمی سادہ اور صاف گو ہیں۔ تھوڑے سے لْر بھی ہیں اور لکیر کے فقیر بھی۔ مذاق کچھ مولویت کی طرف مائل ہے، مگر مولوی طبع ہرگز نہیں! میں انہیں مذاق سے الٰہ دین کہا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اکثر، جب ان کا خیال آتا ہے، یہ جھٹ حاضر ہو جاتے ہیں۔ ان سے تقریباً ہر اختلافی موضوع پر، رائے کا اختلاف رہتا ہے۔ لیکن باتوں باتوں میں، کئی گتھیاں، ایسے سلجھ جاتی ہیں کہ حیرت ہو جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر، میں ہنس کر کہتا ہوں ع ای لقائِ تو! جواب ِہر سوال بسر بْرد ان کی، پنجاب کے کسی دور افتادہ نیم دیہی علاقے میں ہوتی ہے۔ پنجابی تو خیر ان کی مادری زبان ہے۔ یہ اردو فارسی اور عربی بھی خوب جانتے ہیں۔ انگریزی میں البتہ ان کی گاڑی نہیں چلتی۔ اخبار کے ایسے رسیا بلکہ "دھتی" ہیں کہ صبح جاگتے ہی، سارے بڑے اردو اخباروں کو, چاٹ جاتے ہیں۔ اخباروں سے اس چسپیدگی پر، میں انہیں "سیاہی چوس" کہا کرتا ہوں! پچھلے کالم میں، پرانے جمہوری ملک امریکہ اور سے بڑے جمہوری ملک بھارت کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا، یقین تھا کہ ان کو سخت گراں گزرا ہو گا۔ جمہوریت کے یہ زبردست حامی بلکہ نقیب ہیں اور اس لیے، ملوکیت اور آمریت کے سخت دشمن۔ اتفاق سے، آج بھی انہی کا خیال آ رہا تھا کہ ایسے میں، یہ سامنے سے ٹلکتے ٹلکتے، آتے دکھائی دیے۔ میں نے آگے بڑھ کر قدم لیے۔ آئیے مولوی صاحب! بڑے دنوں بعد صورت دکھائی۔ منہ تھتھا کر ایک آدھ رسمی فقرہ کہا اور پھر قہرناکی سے میری طرف دیکھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کیا کہنے کو ہیں، مگر تجاہْل سے کہا۔ بھائی! خیر تو ہے؟ پھٹ ہی پڑے۔ یہ تم اول فول بکا تو کرتے ہی ہو، لکھ بھی مارا؟ صرف ایک نامعقول امریکن صدر اور نابکار بھارتی وزیر ِاعظم کی وجہ سے، تم نے جمہوریت ہی کو پْن کر رکھ دیا؟ میں نے ہنس کر کہا۔ دنیا بھر میں جمہوریت پسندوں کے واسطے،، یہ دونوں ملک مثالیہ ہیں۔ مثالی جمہوریت کا سفر، کیا خوب سے خوب تر نہیں ہے؟ غصے سے بولے۔ دیگ کے سب چاول، ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اوپر کے چاول میں، کبھی کنی رِہ جاتی ہے۔ درمیان کا چاول گلا ہوا ہوتا ہے۔ اور تِہ میں، صرف کھْرچن ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ غلط کہتے ہو۔ اچھا لانگری، تائو ایسا رکھتا ہے کہ سارے چاول مساوی گلتے ہیں۔۔ اور کھْرچن کا بھی علیحدہ مزہ ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جمہوریت کی دیگ کے، اجزاء ہی ناقص ہیں؟ چمک کر بولے۔ وہ کیسے؟ امریکہ کو سپر پاور، ہم نے آپ نے بنایا ہے یا جمہوریت نے؟ میں نے مسکرا کر کہا کہ امریکہ کے سپر پاور بننے کی دو بڑی وجہیں سْن لو۔ پہلی تو اس کی جغرافیائی برتری اور زرخیزی ہے۔ خدا نے اسے محل ِوقوع ایسا دیا ہے کہ اس کے ہمسائے صرف دو ہیں، جو بالکل بے ضرر بھی ہیں۔ جبکہ بقول ِشخصے، یہ خود ساری دنیا کا ہمسایہ ہے! دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو بنانے والے، بڑے محنتی اور جفاکش لوگ تھے۔ تارکین ِوطن، جو اپنی کشتیاں جلا کر سات سمندر پار پہنچے تھے۔ ان کے لیے، یہ "مارو یا مر جائو" کا مضمون تھا۔ سو پہلا مرحلہ، مرنے مارنے ہی کا آ کر رہا۔ مقامی آبادی کا صفایا کرنے کے بعد، تعمیر کی باری آئی - فورا بولے۔ تو ٹھیک ہے ؎ ہر بنائی ِکہنہ کآبادان کنند اول آن بنیاد را ویران کنند شعر کو نظر انداز کرتے ہوئے، بات آگے بڑھائی۔ "زمین وسیع، اجناس فراواں، موسم گوارا، اور جذبے کا وفور۔ یہ ہے اس خواب کی بنیاد جسے "امریکن خواب" کہا جاتا ہے۔ جو ترقیاں امریکہ نے بعد میں کیں، ان میں جمہوریت کا کم اور قانون کی علمداری کا ہاتھ زیادہ ہے"۔ چراغ دین نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں۔ "وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن جمہوری نظام نے پچھلے سوا دو سو برسوں میں، اس ملک کی کایا پلٹ دی ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے تک، کتنے ہی علاقوں میں، لاقانونیت ہی قانون تھی۔ وحشت ہر سو رقص کرتی تھی۔ تم نے ویسٹرن فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ مان لو کہ یہ امن ِعامہ، جمہوریت کا ثمرہ ہے۔" اب میرا ناریل چٹخ گیا۔ کہا کہ تاریخ ِعالم سوا دو سو سال پہلے آغاز نہیں ہوئی! جمہوریت ہو یا آمریت، اصل شے عوام کی خدمت کا سچا جذبہ اور انصاف کی فراہمی ہے۔ تاریخ میں کتنے ہی بادشاہ گزرے ہیں، جن کی انصاف پسندی، ضرب المثل بن گئی۔ یہ ایک دور ہے، جس میں ہم تم، جمہوریت کے سوا، کچھ اور نہیں دیکھنا چاہتے۔ نیت نیک نہ ہو تو جمہوریت اور سیکولر ازم کے پردے سے بھی، نریندر مودی برآمد ہو کر رہتا ہے۔ سید سلیمان ندوی نے کہا تھا کہ کمیونزم، بیک وقت، بادشاہ کو تخت سے اور خدا کو عرش سے اتار دینا چاہتا ہے! میں کہتا ہوں کہ رائج اور متعارف جمہوریت نے بھی، ہر عامی کی گردن میں، ایک جوا ڈال رکھا ہے۔ کولہو کے بیل کے مانند، ایک دائرے میں گھومتے گھومتے، عمر تمام ہو جاتی ہے۔ اور ہاں، تم کو ویسٹرن فلموں کی قتل وغارت تو یاد رہی، یہ بھول گئے کہ جنگ زدہ علاقوں کے سوا، دنیا بھر میں، آج بھی سب سے زیادہ قتل و غارت، امریکہ میں ہوتی ہے۔ "عوام کالانعام"۔ یعنی عامتہ الناس کی مثال، چوپایوں کی سی ہے۔ مطلب یہ کہ جدھر چاہو، انہیں ہانک دو۔ جمہوری نظام کھڑا ہی ہے، اس نکتے پر کہ عوام کی رائے، اولیٰ ہے۔ یہ بگھی میں گھوڑے کو جوتنے کے بجاے، گھوڑے میں بگھی کو جوتنے کے برابر ہے! رائے مصلحین کی ہوتی ہے، اور وہ خواص ہوتے ہیں، نہ کہ عوام! یہ کیسا طریقۂ انتخاب ہے کہ امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے، در در ووٹ کی بھیک مانگتا ہے۔ سبحان اللہ! یعنی اسے ضد ہے کہ کروڑوں اربوں خرچ کر کے، عوام کی خدمت کر کے رہے گا۔ ع اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، اے خدا! اور بھائی سو باتوں کی ایک بات۔ جس نظام میں خدا کو ماننا یا نہ ماننا اور دوسروں کے مذہب کی توہین کی اجازت بھی، شخصی آزادی کے زمرے میں آ گیا، اس میں متبرک سے متبرک شخصیت کی بھی پگڑی، محفوظ نہیں رہ سکتی! جمہوریت اور برابری اور آزادی کے جو سب سے بڑے داعی ہیں، وہ اقوام ِمتحدہ میں پہنچ کر، برہمن بن جاتے ہیں، اور دو سو ممالک شودر! ع چابک سواران یک طرف، مسکین گدایان یک طرف؟ جب دنیا کے سب سے اعلٰی اور اونچے ادارے میں، خاص ملک علیحدہ ہیں اور عام ایک طرف، تو پھر مان لو کہ سوجھتا لکچر ترقی کا تو ہے ہر بات پر ختم لیکن ہو کے رہ جاتا ہے اپنی ذات پر! اور بھائی! تم حکمت اورغور و فکر پر بہت، زور دیا کرتے ہو۔ دیکھو حکیم سنائی آٹھ سو سال پہلے، کیا پتے کی بات کہہ گیا ہے۔ از پئی رد و قبول ِعامہ، خود را خَر مکْن زان کہ کار ِعامہ نبود جْز خری یا خرخری