بظاہر اپوزیشن جماعتیں منتشرہیں انکے غبارے سے ہوا نکل چکی لیکن حسب ِروایت سیاسی افواہوں اور پس پردہ سازشوں کے بازار گرم ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے میں صرف بیس ماہ باقی رہ گئے ہیں۔انہوں نے اگست دو ہزار اٹھارہ میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تھی۔ لیکن گزشتہ ڈھائی سال سے اپوزیشن اور اسکے اتحادی میڈیا کی جانب سے یہی شوربرپا ہے کہ حکومت کے دن گنے جاچکے۔ بس چند ماہ میں جانے والی ہے۔ بجٹ کے بعد نومبر‘ دسمبر کی تاریخ دی جاتی ہے۔ دسمبر میں مارچ‘ اپریل کی۔اگرچہ حکومت قائم ہے لیکن سیاسی بے یقینی کا بازار گرم رہتا ہے۔اِن دنوں مسلم لیگ(ن) کی جانب سے لندن پلان کا شور ہے۔ دعوے کیے جارہے ہیں کہ نواز شریف راضی ہوگئے ہیں کہ ان کی جماعت پیپلزپارٹی ‘اور تحریک انصاف کے پوشیدہ باغی ارکانِ اسمبلی سے مل کر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آئے۔انہیں اعتراض نہیں کہ شہباز شریف عبوری مدت کے لیے وزیراعظم بن جائیں۔چڑیا مارکہ صحافی ایسے دعوے کررہے ہیں کہ ریاستی ادارے عمران خان سے تنگ آچکے ہیںاور ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے والے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) سے وابستہ صحافی طویل عرصہ سے ایسی افواہیںاُڑارہے ہیں۔ ان کے کئی مقاصد ہیں۔ ایک تو ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے‘ پی ٹی آئی حکومت کے قدم جمنے نہ پائیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی مکمل عملداری قائم نہ ہو۔ اعلیٰ سرکاری افسران پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ وفادار نہ ہوں بلکہ متردّدہیں۔ وزیراعظم اور ریاستی اداروں کے بڑے ایک دوسرے کے بارے میں اتنے بدگمان ہوجائیں کہ کوئی بحران پیدا کردیں جس کے نتیجہ میں حکومت رخصت ہو جائے۔ اگلے برس ‘ دو ہزار بائیس میں وزیراعظم عمران خان نے دواہم نوعیت کے فیصلے کرنے ہیں۔ایک تو انہوں نے اگلے نومبر سے پہلے نئے آرمی چیف کا تقرر کرنا ہے کیونکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری تین سالہ مدت ملازمت اگلے برس کے آخر میں مکمل ہونے جارہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں خاص طور سے نواز شریف کو گوارا نہیں کہ ان کا سیاسی مخالف ملک کے اہم ترین ادارہ کا سربراہ اپنی مرضی سے مقرر کرے۔ اپوزیشن کوخدشہ ہے کہ عمران خان کو یہ موقع مل گیا تونیا سپہ سالار ان کا ہمدرد ہوگا۔آئینی اعتبار سے ایسا ہونا بھی چاہیے۔ دوسرامعاملہ اگلے سال جون میں پیش کیے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹوں کا ہے۔ اگلے عام انتخابات وقت پر ہوئے تو دو ہزار تئیس کے آخر میں ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی تو اسے دو سالانہ بجٹ پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن 2023 کا بجٹ کم اہم ہوگا کیونکہ عمران خان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پرمکمل عمل درآمد کا موقع نہیں ملے گا۔الیکشن کو مدِنظر رکھتے ہوئے سب سے اہم بجٹ اگلے مالی سال 2022 کا ہوگا۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ اس بجٹ میں عوام کے ریلیف کے لیے بعض ایسے قدامات کیے جائیں جس سے اسکی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوجائے۔ مثلاً ساٹھ لاکھ سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ ایسے قلیل مدت میں مکمل کیے جانے والے ترقیاتی کام کیے جائیں جس سے مقامی سطح پر تحریک انصاف کے نمائندوں کوفائدہ ہو۔ تمام پارلیمانی جمہوریتوں میں حکمران جماعتیں آخری بجٹ الیکشن کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے بناتی ہیں۔ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ عمران خان اگلا بجٹ پیش نہ کرسکیں تاکہ موجودہ مہنگائی کے بعد انکی پوزیشن سنبھلنے نہ پائے۔ کچھ اور بھی ایشوز ہیں جیسے نئی مردم شماری کا معاملہ ہے۔ اگر حکومتی وعدے کے مطابق چند ماہ بعد نئی مردم شماری کا عمل شروع ہوگیا تو اس سے مختلف صوبوں کے حلقوں کی تعداد کم زیادہ ہوگی اور حلقہ بندیوں پراثر پڑے گا۔ نئی مردم شماری مسلم لیگ(ن) کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ وسطی پنجاب کی آبادی بڑھنے کی رفتار دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہوئی ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کومزید ڈیڑھ سال مل جاتے ہیں تو وہ ایسے انتظامات مکمل کرلے گی کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ووٹ ڈال سکیں۔ یہ بات عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں جائے گی جسکی تارکین وطن میں نسبتاً زیادہ حمایت ہے۔ حکومت کے پاس الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بنوانے اور خریدنے کاو قت بھی ہوگا۔ اپوزیشن بیلٹ پیپر کے روایتی طریقہ کی بجائے ان مشینوں کو استعمال کرنے کی مخالف ہے۔ اندرون سندھ بڑے پیمانے پر بوگس ووٹنگ ہوتی ہے۔ مشینوں کے باعث جعلی ووٹ بھگتانا مشکل ہوگا۔اپوزیشن لیڈروں خاص طور سے شہباز شریف کو یہ خطرہ بھی درپیش ہے کہ منی لانڈرنگ مقدمات میں انہیں سزا سنائی جاسکتی ہے یا کم سے کم وہ مقدمات میں بہت زیادہ الجھ جائیں گے۔ تاہم مخالف جماعتوں سے زیادہ وزیراعظم کے خلاف پاکستان کی انڈو امریکن لابی سرگرم ہے۔ امریکہ اور بھارت کو چاہنے والے صحافی اور این جی اوز کے دانشوردِن رات عمران خان کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ یہ لابی دو وجوہ سے عمران خان کے خلاف ہیں۔ ایک‘ وزیراعظم نے بھارت سے باہمی تجارت نہیں کھولی جسے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے موقع پر بندکردیاگیا تھا۔ دوسرے‘ وزیراعظم نے امریکہ کو افغانستان پرڈرون حملوں کے لیے اڈّے نہیں دیے بلکہ امریکہ کی جمہوری سمٹ میں شرکت کی حالیہ دعوت بھی مسترد کردی۔ انڈیا اور امریکہ اس لابی کے مائی باپ ہیں۔ جو شخص انڈیا اور امریکہ کے پاکستان میںمفادات کو نقصان پہنچائے گا یہ لابی اس پر کیچڑ اچھالے گی۔ اس کے خلاف زہرآلود مہم چلائے گی۔ بہرحال ‘ ان سازشوں ‘افواہوں اور پراپیگنڈہ میںقومی سیاست کی گاڑی جیسے تیسے آگے بڑھ رہی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت پانچ سال کی مدت پوری کرجائے تو اس ملک میں آئینی اور جمہوری نظام کی سرخروئی ہوگی۔انیس سو پچاسی سے لیکر اب تک ایک بھی وزیراعظم ایسا نہیں آیا جس نے معیادپوری کی ہو۔ اگرغور کیا جائے تو عمران خان کا دو ہزار تئیس تک وزیراعظم رہنا صرف حکمران تحریک انصاف ہی کے لیے نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے لیے بھی فائدہ مندہے۔ ملک میں سیاسی جمہوری تسلسل قائم ا ور آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور مستحکم ہوگا۔ غیر آئینی قوتیں کمزور‘ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کے دلِ بے تاب میں اتنا حوصلہ کہاں؟ وہ اکھاڑ پچھاڑ ‘ جوڑ توڑ ‘ ہنگامہ آرائی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اسی شاخ کو کاٹتے ہیں جس پر بیٹھتے ہیں۔اگر سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت قائم کرلیتے تو ملک میں چار بار فوجی حکومت قائم نہ ہوتی۔