اس ملک میں جو حکمران آئے ، وہ عوام سے ہمیشہ دور رہے۔ یہ ضرور سنتے آئے ہیں کہ بہت سارے حکمران عورتوں کے بارے خاصہ نرم گوشہ رکھتے تھے اور جہاں کہیں خواتین نظر آئیں خوب گھل مل لیتے تھے۔ان سے ضرورت سے زیادہ اچھی طرح ملتے تھے۔ یہ شاید حکمرانی کا خاصہ ہے۔ یحییٰ خان اس تعلق کی زندہ مثال رہے۔موجودہ حکمرانوں میں بھی بہت سے ایسے زندہ دل ہیں۔ مگر اس حوالے ا س ہفتے دو خبریں اچھی لگیں کہ ہمارے حکمران ، جناب شہباز شریف کی قیادت میں کمرشل فلائٹ پر سعودی عرب گئے ہیں۔اس سے پہلے یہ نہیں تھا کہ جناب شہباز جائیں اور طیارے کمرشل ہو جس میں بہت سے دوسرے مسافر بھی ہوں، یہ اب بھی آسان تھا کہ سکیورٹی رسک کے نام پر ان عام لوگوں کو طیارے سے باہر پھینکا جا سکتا تھا مگر وزیر اعظم کی یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے عام لوگوں کو برداشت کیا۔اس دفعہ جو دوسرا بڑا کام ہوا کہ شہباز شریف سکیورٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لوگوں میں گھل مل گئے ۔میں نہیں سمجھتا کہ طیارے میں خواتین زیادہ تھیں۔ مرد بھی بہت تھے۔ اس لئے ان کا گھلنا ملنا اچھا اور قابل تعریف تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان جب اپنے کئے پر پچھتانے لگتا ہے تو اﷲکے حضور حاضری دیتا ہے ۔ کعبے کے چکر لگاتا ہے تو اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ اس نے اپنے ساتھی انسانوں کو جو چکر دیئے ہیں ان کی تلافی کر لی ہو۔جناب شہباز شریف نے اپنے پچھلے دور میں عوام کو مہنگائی کے جو چکر دئیے ہیں ان کا ازالہ بھی انہی کو کرنا ہے ۔ عوام کو دئیے گئے چکروں کا ازالہ کئے بغیر خانہ کعبہ کے چکر لگا نے سے تو بات نہیں بن سکتی ۔ مجھے یقین ہے کہ شہباز شریف کچھ ازالہ کرکے گئے ہوں گے اور باقی آ کر کوشش کریں گے۔ ان کی پچھلے دور کی کارکردگی پر جس انداز میں لوگ رو رہے ہیں، آہ و زاری کر رہے ہیں خود کشیوں کا شکار ہو رہے ہیں، یہ سب اﷲ کو بھی نظر آ رہا ہے اور اﷲکسی چیز سے غافل نہیں ہوتا۔اﷲ پر یقین رکھیں وہ ہر چیز کا بہتر حل دیتا اور ہر چیز کو سمجھتا اور جانتا ہے۔ جلد حالات اچھے نظر آئیں گے اور وہ تمام قوتیں اور وہ سب افراد جو خلق خدا کے لئے رب کے حکم کے مطابق آسانیاں نہیں پیدا کرتے رہے یا کر نہیں سکے ، مشکل کا شکار ہونگے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جناب ڈاکٹر شبیر احمد خان پنجاب یونیورسٹی میں سیاست کے استاد ہیں۔ انتہائی ذہین آدمی، سیاست کو بہت سمجھتے لیکن اس کی غلاظت سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر یہ معاشرہ مہذب ہوتا تو شاید اس وقت وہ کسی پارٹی کے تھنک ٹینک کے سربراہ ہوتے۔ لیکن ہمارے ملک میں اس کا فیشن کہاں۔ یہاں تمام معاملات بغیر سوچ اور بغیر فہم کے حل ہوتے ہیں۔ ہر منسٹر پیدائشی ارسطو یا افلاطون ہوتا ہے ، وہ کسی اہل علم کا محتاج نہیں ہوتا۔ سیاسی معاملات پرخانصاحب کی گہری نظر ہے۔وہ معاملات پر تبصرہ ہی نہیں کرتے ، بڑی تفصیل سے بحث کرتے اور اس کا حل بھی بتاتے ہیں۔یہی چیز انہیں دوسرے تبصرہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ہم دوستوں کے ساتھ جب بھی کبھی ان کی سیاسی بات چیت ہوئی تووہ کھل کر ایک پارٹی کی حمایت کرتے۔ آج وہی پارٹی اقتدار میں ہے مگر فیس بک پر ان کی ایک پوسٹ دیکھی ۔ لہجہ کچھ مایوسی کا تھا۔ جب کسی پارٹی کے اپنے بھی مایوس نظر آئیں تو یہ اس پارٹی کے لئے انتہائی الارمنگ لمحہ ہوتا ہے۔ خان صاحب جس پارٹی کے حامی رہے اس کے لوگوں کے لئے خان صاحب کی مایوسی انتہائی سوچ کا مقام ہے ۔جناب شبیر احمد خان لکھتے ہیں ۔’’میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک پچاس سال سے اوپر ہو گئے۔ہر حکمران کو احرام باندھے ، غلاف کعبہ کو تھامے ، ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے گڑگڑاتے ہوئے دعائیں مانگتے دیکھا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان دعائوں کا کیا بنا۔ اوپر والا ان کی نہیں سنتا، یہ عوام کی نہیں سنتے ۔ کتھے جائیے؟‘‘۔ خان صاحب پوچھتے ہیں۔ کتھے جائیے؟تو خان صاحب عرض ہے کہ میرے اور آپ جیسے اہل درد کا ٹھکانہ فقط پاکستان ہے ہم چاہ کر بھی کہیں کسی دوسری جگہ جا نہیں سکتے۔ ہمارا جینا مرنا اسی سرزمیں سے وابستہ ہے۔ اس لئے کتھے جائیے سوچنا چھوڑ دیں۔ حالات سدا ایک سے نہیں رہتے۔ انہیں کبھی نہ کبھی بدلنا ہوتا ہے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ساری سیاست جھوٹ کی بنیاد پر استوار ہے ۔ جو جتنا جھوٹ بول سکتا ہے اتنا ہی کامیاب ہے۔سیاست سے اخلاقی قدریں مکمل رخصت ہو چکی ہیں۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اپنی ذمہ داریوں تک خود کو محدود رکھے ہو۔ جب ادارے یا ان سے جڑے چند اشخاص بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو اپنی ہی نہیں ادارے کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ تاریخ کسی طاقت کی پرواہ کئے بغیراپنے فیصلے رقم کرتی رہتی ہے ۔ کوئی شخص جب منظر سے ہٹتا ہے تو تاریخ اسے آئینہ دکھانے میں بخل سے کام نہیں لیتی۔ اس وقت اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے مگر اب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران جو دعائیں کرتے ہیں ان میں کتنا صدق دل شامل ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں کے عوام جو دعائیں مانگ رہے ہیں اور جس طرح اپنی بد نصیبی پر ماتم کناں ہیں وہ دعائیں واپس نہیں ہو سکتیں ،کہتے ہیں اﷲکسی مجبور کی دعا رد نہیں کرتا۔وہ دلوں کے حال جانتا ہے ۔ اس کی طرف سے دعا کی قبولیت میں دیر اس لئے ہوتی ہے کہ وہ دعا کرنے والے کے لئے کسی بہتری کا خواہاں ہے اور کسی بہتر وقت اپنی رحمت سے اس کے لئے آسانیاں پیدا کر دے گا۔ رہی حکمرانوں کی دعائیں تو ایسی دعائوں کے بارے بلہے شاہ نے کہا تھا، ادھی راتی گیا مسیتی اوتھے جا تہجد نیتی دل وچوں نہ گئی پلیتی تھمی وانگ ریا کھلو لینی اک نہ دینی دو۔ یعنی آدحی رات کو مسجد جا کر تہجد پڑھنے لگا مگر دل سے پلیدی نہ گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کچھ بھی پا نہیں سکا۔