ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اس وقت ہیوسٹن میں ہیں اور بیس برس کے بعد اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے امریکی جیل میں ملاقات کریں گی۔یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جذبات کے کس مدوجذر سے گزر رہی ہوں گی۔ان بیس برسوں میں ان کی زندگیاں کئی طوفانوں سے گزر چکی ہیں۔میں یہاں پاکستان میں ڈاکٹر فوزیہ کے لیے حوصلہ کی دعا کرتی ہوں کہ جب وہ ہیوسٹن کی کارزویل جیل میں بدترین تشدد سہتی ،قید تنہائی کاٹتی ہوئی بدقسمت قیدی خاتون کے ستم رسیدہ خدوخال میں اپنی پیاری بہن عافیہ صدیقی کو تلاش کریں تو رب ان کے دل کو تھامے رکھے۔ ڈاکٹر عافیہ کی بات اس لیے نہیں کر رہی کہ وہ ان بیس برسوں میں نہ جانے کرب کے کیسے کیسے لامتناہی صحرا عبور کرتی رہی ہیں جو صرف ان کی قسمت میں لکھے گئے۔اپنی روح گروی رکھ دینے والے حکمرانوں کی کمزوریوں نے انہیں کرب کے جن طوفانوں سے گزارا میں تصور میں بھی اس ظلم کو لانے سے قاصر ہوں۔ بیس برسوں میں پہلی دفعہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کچھ پیش رفت محسوس ہونا شروع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اسی امید کے ساتھ امریکہ گئی ہیں کہ وہ اپنی بہن کو واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ عافیہ صدیقی کے معاملے پر حکومت کی ناکامی یہ ہے کہ وہ ایک واضح بیانیہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔وجہ یہ ہے کہ عافیہ صدیقی کے حوالے سے لوگوں میں ابہام موجود ہے۔ یہ ابہام بڑی کوشش سے ان طاقتوں نے پیدا کیا جنہوں نے اس خطے میں وار آن ٹیرر کا الاؤ بھڑکایا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ایشو پر میڈیا میں کنفیوژن پیدا کی گئی۔ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لئے بیرسٹر داؤد غزنوی کی کتاب Aafia Unheard: Uncovering the Personal and Legal Mysteries Surrounding FBI's Most Wanted Woman! پڑھنا بہت ضروری ہے۔ یہ کتاب ایمیزون پر دستیاب ہے۔ کوشش کروں گی کہ یہ کتاب منگوا سکوں ۔ بہرحال صاحب کتاب کا ایک انٹرویو یوٹیوب پر موجود ہے جسے سن کی میرے بھی کئی ابہام دور ہوئے۔ میں ریکمنڈ کروں گی کہ یہ انٹرویو ضرور سنیں آپ کے ذہن میں موجود بہت سی الجھنوں کا جواب ہوگا۔ اس کیس کے حوالے سے بیرسٹر داؤد غزنوی نے امریکہ جاکے اس کیس کی پانچ ہزار سے زیادہ دستاویزات کا مطالعہ کیا اور نتیجہ یہ اخذ کیا کہ کہیں سے بھی اس کے شواہد نہیں ملتے کہ وہ القاعدہ کی ساتھی ہیں حتی کہ یہ شواہد بھی نہیں ملتے کہ عافیہ صدیقی افغانستان خود گئی تھیں ۔ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں موجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے حالات، واقعات جھوٹ پر مبنی ہیں جن کی کڑیاں آپس میں نہیں ملتیں۔عافیہ صدیقی پر صرف یہ چارجز ثابت ہوتے ہیں کہ وہ امریکہ میں رہ کر مسلم تنظیموں کے لیے چیرٹی اکٹھا کرتی تھیں ۔اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جو کوشش کرتی تھیں وہ دہشت گردی میں شمار نہیں ہوتا۔ یہ مسلمانوں پر وہ برا وقت تھا جب ہر سکارف لینے والی عورت اور ہر داڑھی والے شخص کو دہشت گرد سمجھا جاتا تھا۔ بیرسٹر غزنوی کہتے ہیں کہ عافیہ کو جس سطح کا دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا عدالتی کارروائی کے دوران کراس ایگزامنیشن میں عافیہ صدیقی ایک دہشتگرد تو کیا ایک ایسے انسان کے طور پر بھی نظر نہیں آتیں جو اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم و غصہ رکھتا ہو، یہاں تک کہ عافیہ صدیقی نے اپنے خلاف جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی معاف کر دیا۔یہ بھی کہا کہ ان کے نام پر پوری دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی نہ کی جائے کیونکہ وہ اس کو کبھی سپورٹ نہیں کرتیں۔امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گردی کے چارجز سے بری کردیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ عافیہ کو پاکستان کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت ہچکچا رہی ہے۔امریکی وکیل کلائیو سمتھ مسلسل کئی برس سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش میں مصروف ہیں۔مئی کے دوسرے ہفتے میں وہ پاکستان آئے تھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی پیش ہوئے۔کلائیو سٹیفورڈ سمتھ برطانوی وکیل ہیں۔ وہ دنیا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ ایسے بے بس قیدیوں کے کیس لیتے جنہیں خطرناک جرائم میں موت کی سزا ہو چکی ہو۔ گوانتاناموبے کی جیل میں قید 300 قیدیوں کی رہائی کے لیے جدوجہد کی ۔ ان میں سے 98 فیصد کیسوں میں انہیں فتح ہوئی ہے جو کہ غیر معمولی بات ہے۔ اگر امریکی عدالتوں سے کئی ایسے گوانتاناموبے کے قیدیوں جن پر دہشتگردی کے چارجز تھے وہ رہا ہو چکے ہیں تو عافیہ صدیقی کیوں رہا نہیں ہو سکتیں؟عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ نے ایک کانفڈنشل خط بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں تحریر ہے کہ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر ایسے کون سے اقدامات کرے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہوسکے۔کورٹ نے دفتر خارجہ آرڈر کیا کہ وہ اس سلسلے میں خصوصی دلچسپی لے اور اس کو پاکستان واپس لانے کے لیے اقدامات کرے۔اسلام آباد کورٹ کا یہ آرڈر یقینا علامتی ہے ورنہ ہم نے پاکستان کے نظامِ انصاف کو دو پاکستانیوں کے امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کے سامنے کورنش بجا لاتے بھی دیکھا ہے۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کو پانچ سال کا امریکی ویزا جاری کیا گیا ہے۔ وہ بیس سالوں میں پہلی بار اپنی بہن سے ملاقات کریں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب رہائی کے قریب ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم میں تیرہ جماعتوں کی حکومت ہے ۔ہماری استدعا ہے کہ سفارتی سطح پر موثر اقدامات کرکے عافیہ صدیقی کی رہائی کو ممکن بنائیں اور انہیں بلاوجہ کے میڈیا exposure سے بچانے کے لیے گھر تک محدود بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور آپشن بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی تیسرے ملک میں ان کو ایک آزاد زندگی بسر کرنے کا موقع دیاجاناچاہیے۔