جب معیشت نہ سنبھالے جانے پر سوال صحافی کو تھپڑ رسید کرنے پر اکسا سکتا ہے تو پھر معاشی ابتری پر فاقوں، محرمیوں اور پریشانیوں کے شکار عوام کا ردعمل حکومتی طاقت کے بل پر کتنا عرصہ روکا جاسکتا ہے؟ کیا موجودہ حکمران اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر نقش لکیروں پر ہمیشہ کیلئے اقتدار کی مہر لگوائے ہوئے ہیں؟ کیا انھوں نے کبھی اقتدار سے باہر نہیں ہونا؟ کہا جا رہا ہے: نواز شریف پاکستان واپس لوٹ سکتے ہیں، کون سا محاذ سر کر کے انھوں نے واپس لوٹنا ہے؟ جو خوشی ظاہر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ویسے بغلیں بجانے والوں کیلئے عرض ہے: پی ٹی آئی بھی ان کی واپسی کی خواہاں ہے، انکی واپسی اور اقتدار ن لیگ کے غبارے سے بچی کچی ہوا نکال دیگا، جمہور کی طاقت کے بغیر اقتدار کی چاہ نے نواز شریف کے سیاسی مستقبل کو تاریک کردیا ہے پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد سے قبل البتہ معاملہ اور تھا، لہذا ان حالات میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نظر نہیں آتا، سپریم کورٹ میں آرمی ایکٹ کے حوالے سے قائم کردہ بینچ کے بعد کی صورتحال اور بالخصوص وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان کی پیشن گوئیاں کہ سات رکنی بینچ بھی ٹوٹ جائیگا واضح پیغام ہے کہ انتخابات نہیں کروائے جائیں گے، گویا حکمران اتحاد شکست کے خوف میں مبتلا ہے۔ اس خوف میں معشیت، آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور اسے اپنی فتح گمان کرنے لگے ہیں، ذہنی پستی کی سب سے خطرناک حد یہی ہوتی ہے کہ جب انسان دوسروں سے جھوٹ بول بول کر خود سے بھی جھوٹ بولنے لگے، کیا کسی کو وہ نعرے اور دعوے یاد ہیں جو اس پی ڈی ایم اتحاد نے بلند کیے تھے، آج کے حالات کا بغور جائزہ لیں؛ ایک کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا، الٹا ایسے حالات پیدا کردئیے ہیں کہ نواز شریف یا وہ جو پنجاب کے صنعتکاروں کا دل لبھانے میں مصروف آصف علی زرداری ہیں، ان دونوں میں سے کوئی یا ان کی اولاد برسر اقتدار آجائے اور دودھ و شہد کی بہانے کی غلطی کردے تو بھی عوام انھیں قبول نہیں کریں گے۔، عوام اپنے ساتھ برتے جانے والے سلوک کو فراموش نہیں کریں گے۔ صدحیف حکمرانوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلوں کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا، جب اسمبلی فلور سے عدلیہ پر حملے نہ کیے جاتے ہوں،سینئر قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ عدالتوں کے حکم اور فیصلوں کو نہ ماننا آئین کی خلاف ورزی ہے، بجا مگر کون سا فیصلہ مانا جارہا ہے؟ یہ سوال وکلا کی صفوں میں اضطراب کو جنم دے رہا ہے، وکلاء تحریک کیلئے پر تول رہے ہیں۔ایسے حالات پیدا کردئیے گئے ہیں کہ ہر شعبہ اور ہر شخص بحران کی زد میں ہے، معاملات سلجھانے کا ذمہ لینے کو کوئی تیار نہیں، نگران حکمران انتقام کی ڈیوٹی پر فائز ہیں اور پولیس روز قہر ڈھا رہی ہے، ایک طوفان برپا ہے؛ تباہی سے کسی کا جی نہیں بھر رہا، کتنی دیر حکمران ہر غلطی کا ذمہ سابق حکومت پر دھرتے رہیں گے؟ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے یونان کشتی حادثہ کی ذمہ داری بھی سابق حکومت پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ گزشتہ دور حکومت میں انسانی سمگلروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جھوٹ آخر جھوٹ ہوتا ہے، اس کے دامن سے خیر نہیں پھوٹ سکتا، انتقام کی خواہش میں مبتلا لوگوں کی زندگی سزا کی طرح ہوتی ہے اور بلا آخر جھوٹ پر قائم ریت کا محل ہوا کے ایک جھونکے کی نذر ہو جایا کرتا ہے، جس معاشرے میں سیاسی جماعتیں انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے جواز تلاش کریں وہاں بے یقینی کی فضا کا اندازہ حالیہ حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔صحافی کو تھپڑ رسید کرنا کوئی جواب یا حل نہیں، یہ اعتراف جرم ہے کہ ہماری کارکردگی کا کوئی جواب نہیں، ہم ہارے ہوئے لوگ ہیں، طاقت کا زعم جنہیں اقتدار سے الگ نہیں ہونے دیتا اور آئندہ اقتدار چھن جانے کا خوف طاقت کے استعمال پر مجبور کرتا ہے۔ویسے تو گزشتہ سوا برس سے حیرت ہر موڑپر کھڑی قوم کو منہ چڑھاتی ہے مگر حیرت صحافیوں پر بھی ہے ۔زیادہ پرانی بات نہیں، تلخ جواب آزادی صحافت پر حملہ گردان لیا جاتا تھا، اب تھپڑ بھی پڑیں تو سناٹا طاری ہوتا ہے، یہ ریاست کے چوتھے ستون کا نوحہ ہے, فقط اتنی عرض ہے کہ ان صحافیوں میں سے ہی کسی نے تاریخ کیلئے صفحات کو پر کرنا ہے! جب مورخ کا قلم آزاد ہوگا تو ایسے تھپڑوں کی گونج صدیوں سنی جاتی ہے، سپریم کورٹ پر حملوں کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ ان سوالات کا راستہ نہیں روکا جاسکتامعیشت کی زبوں حالی کا جواب کتنے برس یہی رہے گا کہ نالائق حکومت نے معیشت تباہ کر دی۔سخت فیصلوں کی راگنی کتنی دیر قوم کا دل بہلا پائے گی، کتنی دیر ظلم کو ظلم کہنے سے روکا جائے گا، کتنی دیر سائل بنا فریاد لوٹتا رہے گا، کتنی دیر جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور کیا جائے گا۔کتنی دیر بھوک راج کرے گی اور حاکم وقت بے وقت کی راگنی کو راحت قرار دے پائیگا، آخر لوٹنا ہوگا، یہ جہاں فانی ہے، یہاں کسی کو دائمی قیام نہیں، آخر لوٹنا ہوگا، آخر یہ تخت و تاج نہ رہیں گے، آخر شب ظلمت ڈھل جائیگی، عمران خان ہوں، نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری ہوں، کوئی ہو، آخر اقتدار نے جانا ہے، اقتدار کی ابتداء دراصل اختتام کا نقارہ ہوتی ہے، ابتدائے دنیا سے ابن آدم کا یہی المیہ ہے اور شاید روز قیامت تک رہے! سیاست دان اور حکمران آپسی جھگڑوں، کرسی کی چاہ اور باہمی فسادات میں یہ کیوں بھول بیٹھتے ہیں، اصل بادشاہت اللہ رب العزت کی ہے جو طاقت و کمزوری دیکر ہر حال میں بشر کو آزماتا ہے مگر افسوس ہم اپنے اسلاف کو بھول گئے، اپنے حقیقی مقصد کو بھول گئے، قانون قدرت کو بھول گئے، ہم نے کئی ناخدا تراش لئے، کئی جرم کر ڈالے اور کرتے چلے جا رہے ہیں، آخر سب نے چلے جانا ہے، اس خالق و مالک کے پاس لوٹنا ہے، یہ سوچ لیا جائے تو موجودہ درپیش تمام بحرانوں کا حل نکالا جاسکتا ہے، آخر کتنی دیر اور کتنے تھپڑ مارتے رہیں گے؟