خالد حسن بھٹو کے پریس سیکرٹری تھے۔وہ ضیاء الحق کے پورے دور میں جلا وطن رہے اور ضیاء کے بعد پاکستان آئے۔اُن کی انگریزی تحریروں کا میں ہمیشہ ہی اسیر رہا۔انگریزی جملہ۔۔۔اور پھر اُس کی کاٹ اور سیاسی مزاح۔۔۔ اُن کی انفرادیت تھی۔اُن کے انگریزی کالموں کا ایک مجموعہ ہے۔اُس کا انگریزی ٹائٹل ہے۔"Give us back our Onions" "ہمارے گنڈے ہمیں واپس کرو"۔اپنی کتاب سکور کارڈ میں ذوالفقار علی بھٹو کا خاکہ بے مثال اور لا جواب ہے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی گائیکی اور شخصیت کے معترف تھے۔میڈم بھی اُن کے جملوں کا لطف لیتی تھیں۔ایک دن نورجہاں سے اُن کی عمر پوچھ بیٹھے۔میڈم کا جواب"زندگی کے تجربے اور مردوں کی شناخت اور پہچان کے لحاظ سے میری عمر سو سال سے اوپر ہے"۔ایسا جواب میڈم ہی دے سکتی تھی۔شوکت حسین رضوی سے مادام کی شادی بھی ہوئی اور بچے بھی۔مگر یہ بات ذرابعد میں۔پہلے خالد حسن ہی کا ایک واقعہ۔ ایک دن موصوف نے میڈم سے کہا کہ آپ نے زندگی میں کتنے افیئر کیے؟میڈم نے انگلیوں پر گننے شروع کیے۔جب سترہ تک پہنچیں تو ایک دم چونک کر کہنے لگیں"وے اڑیا۔۔۔نہ نہ کردے وی پندرہ سولہ تے ہو گئے نیں"۔ایک دن جہانگیر بدر۔۔۔نورجہاں کی لبرٹی والی کوٹھی میں لاہور کی ایک پاپولر ارائیں شخصیت کو میڈم کے گھر لے گئے۔ظلِ ہُما بھی وہاں پر تھیں۔اس شخصیت کے ہمراہ اُن کے بڑے بیٹے بھی تھے۔وہی بتاتے ہیں کہ میڈم نے اپنی بیٹی سے کہا کہ صاحب کو فیض احمد فیض کی وہی غزل سنائو۔"مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ"۔ وہ کھانے اور گانے دونوں سے لطف اندوز ہوئے کہ اُن کے مطابق دونوں ہی بے حد رسیلے اور سُریلے تھے۔ اسی محفل میں میڈم نے بتایا کہ مجھے خواجہ خورشید انور سے عشق ہو گیاتھا۔یہ وہی خواجہ صاحب ہیں جو گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ میں گولڈ میڈلسٹ تھے۔تقسیم سے پہلے مقابلے کا امتحان دیا۔مگر جس دن انٹرویو تھا۔۔۔موسیقی کا ایک کنونشن تھا۔ہندوستان بھر کے مہا گائیک اور کلاکار مدعو تھے۔خواجہ صاحب نے انٹرویو دینے کی بجائے کنونشن میں شرکت کو ترجیح دی۔خواجہ صاحب ماچس کی ڈبیا پر بجا کر دھن بنا لیتے تھے۔ڈائریکٹر مسعود پرویز نے لازوال فلم ہیر رانجھا بنائی تو اس کی ہیروئن الھڑ فردوس اور ہیرو خوبرو اعجاز تھے۔اس فلم کے گانے زیادہ تر میڈم نے ہی گائے۔اس فلم کے گیت کار باکمال پنجابی شاعر احمد راہی تھے۔وہ خواجہ صاحب کی جو ادائیں بیان کرتے تھے وہ پھر سہی۔بات کر رہے ہیں میڈم اور خواجہ صاحب کے عشق کی۔میڈم کے مطابق یہ طے پایا کہ شام4بجے کی فلائٹ سے کراچی چلتے ہیں اور وہاں شادی کر لیتے ہیں۔میڈم کے مطابق پنجابی میں"میں ایئر پورٹ تے خواجہ صاحب نوں اُڈیکدی رئی۔4وج گئے۔۔5وج گئے تے فیر6وی وج گئے۔پَر خواجہ جی نہ آئے"۔میڈم کی آنکھوں میں گہرا تاثر بھی تھا اور آواز میں اُداسی بھی۔پاکستانی پامسٹ ایم اے ملک میڈم کے ہاتھ کی ریکھائوں بارے کہا کرتے تھے کہ میڈم کے ہاتھ میں انگلیوں کے نیچے،دِل کی لائن کے اُوپر ایک لائن تھی جِسے حلقہ زہرہ کہتے ہیں۔یہی ریکھا۔۔۔ایم اے ملک کے مطابق،سعادت حسین منٹو اور صادقین کے ہاتھ پر بھی تھی۔ایسے فنکار اپنے فن میں اسقدر ڈوب جاتے ہیں کہ فن تو اپنی معراج کو چھو لیتا ہے مگر جذباتی نا ہمواری اورابنارملٹی فنکار کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر میں سال بھول نہیں رہا تو غالباً1980ء کی بات ہے۔سمن آباد کی ڈونگی گرائونڈ میں دو بڑی ٹیموں میں ایک کرکٹ میچ ہو رہا تھا۔مجھے کرکٹ سے لگائو تھا مگر دیکھنے کی حد تک۔میرے ساتھ مشہور کرکٹر مدثر نذر کے والد نذر محمد تشریف فرما میچ دیکھ رہے تھے۔مجھے نجانے کیاسوجھی،میں نے اُن سے میڈم کا ذکر چھیڑ دیا۔وہ میچ کی بجائے میڈم کے ذکر میں گُم ہو گئے۔آپ بھی سنیے۔میں میڈم کی زندگی میں پہلا شخص تھا جو بطورِ محبوب آیا۔نذر محمد کے بڑے بھائی موسیقار فیروز نظامی سے بے بی نور جہاں گانا سیکھ رہی تھی۔نذر محمد ایک دن اُس کمرے میں گھس گئے۔نذر صاحب کے مطابق میں نوری کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔نوری نے سوالیہ نظروں سے ماسٹر صاحب کی طرف دیکھا۔"میرا چھوٹا بھائی ہے"۔بہت اچھی کرکٹ کھیلتا ہے۔تم نے کبھی ریڈیو پر اس کی غزلیں نہیں سنیں؟نذر محمد نے اس وقت جو غزل سنائی اُس کا انگ ،رنگ اور ڈھنگ تو کلاسیکل تھا مگر آواز میں گہرائی اور سوز نے بے بی نورجہاں پر جادو کر دیا۔دونوں میں عشق پروان چڑھا۔مگر نذر محمد کے گھر والے نہ مانے۔نذر کی شادی کہیں اور ہو گئی اور میڈم کی شادی شوکت حسین رضوی سے ہو گئی۔شوکت حسین رضوی نے1948ء میں نورجہاں اور دلیپ کمار کولے کر ایک فلم"جگنو"بھی بنائی اور ملتان روڈ پر شاہ نور سٹوڈیو بھی بنایا۔ شوکت صاحب کے مطابق شادی کے بعدایک دن نورجہاں غائب ہو گئی۔بہت ڈھونڈھا تو پتہ چلا کہ ایک بابا جو تعویذ دھاگے کا ماہر ہے،نورجہاں اُس کی طرف ہے۔شوکت صاحب پولیس اور بندے لے کر وہاں پہنچے۔بابا باہر آیا،جب اُس سے پوچھا تو کہنے لگا، میں کسی نورجہاں کو نہیں جانتا۔شوکت صاحب زبردستی اندر گھس گئے۔اوپر والے فلور پر نذر محمد اور نورجہاں دونوں موجود تھے۔میڈم نے نذر محمد سے کہا کہ تم نیچے چھلانگ لگا دو۔نذر محمد صاحب نے چھلانگ لگا دی۔اُن کی بازو ٹوٹ گئی اور اُن کا کرکٹ کیریئر ختم ہو گیا۔نذر صاحب جب اپنی اور میڈ م کی کہانی سُنا رہے تھے تو اُن کی آواز میں دکھ اور پچھتاوا تھا اور اُن کی آنکھیں آسمان کے اُفق پر جیسے کچھ تلاش کر رہی تھیں۔میں نے فلم سٹار اعجاز سے ایک دن میڈم کے متعلق سوال کیا تو وہ مسکرا کر ٹال گئے۔بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ میڈم کو کراچی میں کیوں دفن کیا گیا؟کہتے ہیں کہ جب بیٹے اصغر اور بیٹی ظلِ ہُما نے میڈم کو لاہور دفن کرنے کی تجویز دی تو حنا اعجاز نے کہا"آج لیلۃ القدر ہے۔کیا تم نہیں چاہتے کہ ہماری والدہ جنت میں جائیں"؟