پچھلی مردم شماری کے دوران رات کو ہم کھانے کی میز کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ ان میں مردم شماری کی ٹیم کے تین افراد شامل تھے جن میں ایک درمیانی عمر کے اسکول کے استاد، ایک فوجی جوان اور ایک پولیس اہلکار۔ ٹیچر نے مردم شماری کا رجسٹریشن کھولااور انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا۔ شروعات میری87 سالہ ذہنی طور پر چاک و چوبند رشتہ دار سے ہوئیں ۔کچھ ہی دیر میں مجھے کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ سوال کنندہ نے تین سوالات پوچھے لیکن رجسٹر سات جوابات کا اندراج کیا۔میں نے فوری طور پر مداخلت کی اور اسے بتایا کہ اس نے سوالات کی تعداد سے کہیں زیادہ جوابات کا اندراج کیا تھا۔ اس نے اپنے تخیل سے کام لیتے ہوئے مذہب، معذوری اور شادی شدہ حیثیت کے کالموں کو از خود پر کرلیا تھا۔ انٹر ویو کا سلسلہ آگے بڑھا لیکن وہ اس غلطی کو دہراتا رہا۔ وہ مذہب، شادی شدہ حیثیت، اور معذوری کے بارے سوالات سے زیادہ یہ جاننے میں زیادہ متجسس تھا کہ 'کیا آپ کے پاس ریڈیو، ٹی وی ہے، یا آپ اخبار پڑھتے ہیں؟' یہ واقعی ایک بہت سنگین غلطی تھی اور تربیتی ہدایات کی خلاف ورزی۔ مردم شماری کی شکل میں کالم 6 مذہب کے بارے میں ہے اور جوابات ریکارڈ کرنے کے لئے ہدایات اس میں واضح ہیں کہ ہر فرد کا علیٰحدگی میں انٹرویو کیا جائے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو مردم شماری کے فارمز میں ترمیم کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ مردم شماری میں معذور افراد کو شامل بھی شامل کیا جاسکے، لیکن شمار کنندہ نے کسی سے معذوری کے بارے میں پوچھنے کی زحمت تک نہ کی۔ انیس سو اٹھاسی کی مردم شماری ہمارے ملک میں صرف 2.4% معذور افراد اور 4.16% اقلیتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ سول سوسائٹی تنظیمیں اور اقلیتوں اور معذوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ان اعداد و شمار سے تکنیکی بنیادوںمتفق نہیں ہیں۔ ان سے اتفاق کرتے ہوئے، میں اس بات کا قائل ہوں کہ کم شرح کی اصل وجہ صرف طریقہ کار نہیں ہے، بلکہ ان کا شمار سے اخراج بھی ہے۔ میں کچھ دوستوں سے رابطہ کیا انکا تجربہ بھی مختلف نہیں تھا۔ میرے ایک پرانے دوست جو کبھی کراچی میں چیف کمشنر مردم شماری تھے، نے مجھے بتایا کہ ماضی میں ہر مردم شماری کے بعد اس کے طرز عمل کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ یہ رواج ترک کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا، اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہمارے پاس مردم شماری کے اعداد و شمار میں خامیاں ہوں گی۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں مردم شماری کے انعقاد میں خواتین شمار کنندگان کی عدم موجودگی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ میں نے خواتین شمار کنندگان کی اہمیت کے بارے میں محکمہ مردم شماری کے اس بیان کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا کہ 1998 کی مردم شماری کے انعقاد میں خواتین شمار کنندگان کی عدم موجودگی کی وجہ سے لڑکیوں اور خواتین کی صحیح گنتی نہیں کی گئی۔ اس احساس کے باوجود، محکمہ مردم شماری نے خواتین شمار کنندگان کو مناسب تعداد میں تعینات نہیں کیا تھا۔ زیادہ تر ریاستی اداروں میں یہ ذہنیت غالب ہے۔ یوں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ تقریباً 12 ملین خواتین ووٹر لسٹوں سے غائب ہیں۔ محکمہ مردم شماریات کی ٹیم سے سامنا کرنے کے بعد سے میں اس پہیلی کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اسکول ٹیچر نے بار بار یاد دہانی اور سخت اور واضح ہدایات کے باوجود جواب دہندگان سے ان کے مذہب اور معذوری کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا اور بغیر کسی یاد دہانی کے ریڈیو، ٹی وی، اخبار کے بارے میں کیوں پوچھا؟ کیا وہ غیر مرئی اداکاروں کی زبانی ہدایات کے تحت کام کر رہا تھا؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ کیا وہ دقیانوسی تصورات سے مغلوب تھا؟ ایسا ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو پیشہ ورانہ سروے کر رہا ہے اسے کوئی جواب فرض نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا درست نہیں۔ اسے ہر ایک سے ہر سوال پوچھنا چاہیے اور ہر ایک کے جواب کو الگ الگ ریکارڈ کرنا چاہیے جب تک کہ دوسری صورت میں ہدایت نہ کی جائے۔ اس لیے میری نظر میں قصور صرف شمار کنندگان کا ہی نہیں بلکہ محکمہ مردم شماری اور ٹیکنوکریٹس کا بھی ہے۔ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ لاکھوں لوگ نہ صرف گنتی سے غائب ہیں بلکہ گنتی میں سے بہت سے لوگوں کے بارے میں غلط اعداد وشمار اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہ رہے یہ تصور پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) فریم ورک کی جان ہے۔ میں ان سترہ اہداف میں سے میں سے دس کا ذکر کرونگا۔ ایک، غربت کا خاتمہ۔ دو، بھوک کا اتدارک اور غذائیت کو بہتر بنانا، تین، صحت مند زندگی کو یقینی بنانا اور ہر عمر کے افراد کے لئے خوشحالی کو فروغ دینا۔ چار. لازمی اور منصفانہ معیار تعلیم کو فروغ دینا۔ پانچ، صنفی مساوات اورخواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا۔ چھ، صاف پانی اور حفظان صحت کی دستیابی۔ سات، سستی، قابل اعتماد، پائیدار اور جدید توانائی تک رسائی۔ آٹھ، مسلسل، جامع اور پائیدار اقتصادی ترقی، اور باعزت روزگار۔ نو، عدم مساوات میں کمی۔دس، شہروں اور انسانی بستیوں کومحفوظ اور پائیدار بنانا۔ اگرچہ حکومتیں پائیدارترقیاتی اہداف پر عمل کی قانونی طور پر پابند نہیں ہیں، تاہم یہ اہداف انہیں، خاص طور پرپسماندہ ممالک میں برسر اقتدا، دعوت عمل دیتے ہیں کہ وہ 2030 تک اپنے کمزور اور غریب ترین طبقے کو بھوک، بیماری اور جہالت کے چنگل سے باہر نکالنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ مردم شماری ہمیں پائیدار ترقیاتی اہداف کی تکمیل کی مناسب منصوبہ بندی میں مدد کرسکتی تھی،تاہم محکمہ جاتی ناقص حکمت عملی اور ٹیکنو کریٹس کی غفلت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ مردم شماری صرف سروں کی گنتی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ انسانی آبادی، ہاؤسنگ ڈھانچے، نقل مکانی کے نمونے، تعلیم، پانی، صفائی، شرح اموات، مادری زبان، نسل، معذوری، اور اقلیتوں جیسے عوامل کے کے بارے میں میں ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار آبادی کی مستقبل کی ضروریات اور منصوبہ بندی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ بروقت اور مناسب کارروائی کے لیے معیاری اعداد و شمار کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔